انور مقصود پاکستان کے شو بزنس سے جڑی ایسی نامور شخصیت، فن کار اور مصنف ہیں جن کے کردار آنگن کتنا ہی ٹیڑھا کیوں نہ ہو، مہارت سے ناچتے اور دلوں پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
سن 1983 میں ان کا پاکستان ٹیلی ویژن سے مشہور ترین ڈرامہ سیریل ’آنگن ٹیڑھا‘ ٹیلی کاسٹ ہوا تھا۔ اب 35 سال بعد اس کا سیکوئل ’ناچ نہ جانے‘ اسٹیج ہونے جا رہا ہے جو دراصل پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی پہلی پیشکش ہے۔
گزشتہ ہفتے اس ڈرامے کا صحافیوں اور دیگر شخصیات کے لیے پریمیئر شو ہوا تھا۔
اسٹیج پلے سے متعلق مزید تفصیلات سے ذرا پہلے ہم آپ کو اسی پلے سے جڑی ایک خاص بات بھی بتاتے چلیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ماضی کے بے شمار فن کار ایسے ہیں جو انٹرٹینمنٹ کے پردے پرجب تک جگمگاتے رہے، تو سب کی آنکھوں کا تارا رہے۔ لیکن جیسے ہی ’آف اسکرین‘ ہوئے مایوسی، بیماری، تنگ دستی اور کسمپرسی نے انہیں آگھیرا۔
ان میں سے کچھ کو تو سرکاری امداد مل گئی لیکن کچھ کو حکام بالا تک رسائی بھی نہ ملی تو امداد کہاں سے آتی۔ یوں وہ بے چار گی اور لاچارگی میں منوں مٹی تلے جاسوئے۔ ان فنکاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔
حالیہ ہفتوں یا مہینوں میں بھی ایسے کئی فنکار بے یار و مدد گار ہو کر یہ دنیا چھوڑ چکے ہیں جب کہ کئی فنکار اس وقت بھی بیماری اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔
انور مقصود جیسا حساس مصنف قلم کے ذریعے برسوں سے معاشرے میں آگاہی پھیلاتا رہا ہے۔ وہ خود بھی شو بزنس کا بڑا نام ہیں اسی لیے ایک فن کار کے درد کو ایک فن کار بن کر سمجھنے کے لیے انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کی پہلی پیشکش 'ناچ نہ جانے' سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے اُن فنکاروں کو دینے کا اعلان کیا ہے جو کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس بات کا اعلان انور مقصود نے 'ناچ نہ جانے' کے پریمیئر میں کیا۔ پریمیئر میں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی درجنوں نامور شخصیات نے شرکت کی جن میں بشریٰ انصاری، ہمایوں سعید، سلطانہ صدیقی، فہد مصطفی اور دیگر شامل تھے۔
انور مقصود کا کہنا تھا کہ 'ناچ نہ جانے' کو 1980ء میں کلاسیکل موسیقی اور رقاصاؤں پر لگنے والی پابندی کے تناظر میں تحریر کیا ہے جسے داور محمود نے ڈائریکٹ کیا ہے۔
'ناچ نہ جانے' پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری ماضی کے مشہور ترین ڈرامہ سیریل 'آنگن ٹیڑھا' کا پریکوئل ہے۔ 'آنگن ٹیڑھا' انور مقصود نے اسی دہائی کے شروع میں لکھا تھا جو پی ٹی وی سے ہفتہ وار نشر ہوا۔
سیریل میں شکیل، بشریٰ انصاری، سلیم ناصر، دردانہ بٹ اور ارشد محمود نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ بشریٰ انصاری کے کردار کا نام جہاں آرا تھا۔
پریمیئر شو میں بشریٰ انصاری بھی موجود تھیں جن کا کہنا تھا "آج 35 برس پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ انور مقصود کا حسِِ مزاح اور حسِِ ظرافت مزید شوخ ہوتا جارہا ہے۔"
آرٹس کونسل میں اسٹیج ہونے والے اس پلے میں محبوب صاحب (شکیل) کا کردار عبداللہ فرحت، جہاں آرا کا کردار سارہ بھٹی، اکبر (سلیم ناصر) کا کردار یاسر حسین، چوہدری صاحب (ارشد محمود ) کا کردارمحمد اسد گجر اور سلطانہ (دردانہ بٹ) کا کردار حنا رضوی ادا کر رہی ہیں۔
تھیٹر پلے کی کہانی میں محبوب صاحب اور جہاں آرا کے گھر کی عکاسی کی گئی ہے جس میں اُن کا ملازم اکبر اپنے نٹ کھٹ جملوں سے گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھتا ہے۔
مہمان آئیں یا محبوب صاحب یا پھر جہاں آرا کے والدین، اکبر کسی نہ کسی بہانے اُن کے سامنے گھر کی مالی حالت اور کچن کی 'بدحالی' کا ذکر کر بیٹھتا ہے تاکہ آنے والا زیادہ دیرنہ ٹہرے۔
کبھی اکبر اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتا ہے اور کبھی بدلے میں اسے جہاں آرا سے ڈانٹ سننا پڑتی ہے۔
رقص کی محفلوں پر پابندی لگنے کے بعد اس شعبے سے وابستہ فن کاروں پر کیا بیتی، اس کی عکاسی اکبر کے کردار یاسر حسین نے کی ہے۔
اکبر مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے پاس ملازمت کے لیے جاتا ہے مگر اسے کہیں نوکری نہیں ملتی۔
انور مقصود کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈرامے میں رقص کرنے والوں کا المیہ بیان کیا ہے جو آج سے چند دہائیاں قبل ملک میں پیش آیا۔ ان کے بقول، "میں امید کرتا ہوں کہ جو بات بین السطور بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ آپ تک پہنچی ہوگی۔"