امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمہوریت پر ہونے والی عالمی کانفرنس کی میزبانی کے دوران جمہوریت کے لیے امریکہ کے اندرونی چیلنجز کو تسلیم کیا ہے۔ ورچوئل انداز میں ہونے والی اس کانفرنس میں عالمی رہنماؤں، سول سوسائٹی، اور نجی شعبے کو ایک جگہ پر جمع کیا گیا تاکہ 'جمہوریت کے احیا اور جمہوری ملکوں کو درپیش سب سے بڑے خطرات کے مقابلے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل' ترتیب دیا جائے۔
صدر جوبائیڈن نے دو روزہ جمہوریت کانفرنس کے آغاز پر اپنے خطاب میں کہا کہ جمہوریت، عالمی انسانی حقوق اوردنیا بھر میں درپیش مسلسل اور تشویش ناک چیلنجز کے مقابلے کے لیے 'چیمپئنز' کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میں یہ کانفرنس اس لیے منعقد کرنا چاہتا تھا کیوں کہ یہاں امریکہ میں ہم جانتے ہیں، جیسے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی تجدید اور اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ایک مسلسل جدوجہد ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا اور پریشان کن چیلنج یہ ہے کہ دنیا بھر میں عوام کا جمہوری حکومتوں پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومتیں ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سال 224 ملین ڈالر کی رقم کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، تاکہ شفاف گورننس بشمول ذرائع ابلاغ کی آزادی، بین الاقوامی کرپشن کے خاتمے، جمہوری اصلاحات کی حمایت اور جمہوریت کو آگے بڑھانے والی ٹیکنالوجی پر خرچ کر سکیں۔
صدر بائیڈن جمعرات کو امریکہ کی سربراہی میں جمہوریت پر ہونے والے دو روزہ ورچوئل اجلاس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں 100 سے زائد ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
صدر بائیڈن نے اس موقع پر کہا کہ یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں جمہوریت اور آفاقی انسانی حقوق کو چیلنج درپیش ہیں۔
صدر نے باور کرایا کہ ایک طرف عام لوگوں کا جمہوری حکومتوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف دنیا بھر میں ’اشرافیہ‘ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے کے دباؤ بڑھا رہی ہے اور وہ جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ جابرانہ پالیسیاں اور اقدامات ہی آج کے مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ہیں۔ بقول ان کے، ''یہ لوگ سیاسی اور سماجی تقسیم پیدا کر رہے ہیں''۔
تاہم، صدر نے کہا کہ ان کے نزدیک 'عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے'، جمہوریت کا یہی نعرہ اپنے اندر مسائل کے خلاف بہترین مزاحمت رکھتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ جمہوریت کی تجدید نو اور جمہوری اداروں کا مضبوط بنایا جانا ایک مستقل کوشش کا متقاضی ہے۔ امریکہ میں بھی جمہوریت، ان کے بقول، ''ایک جاری جد و جہد ہے، تاکہ اپنے اعلیٰ ترین تصورات کے مطابق رہا جا سکے اور ہمارے اندر موجود تقسیم کو کم کیا جا سکے''۔
صدر نے کہا کہ امریکہ کے پاس ’اعلان آزادی‘ جیسی دستاویزات موجود ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ہم ملک بنانے والے آبا و اجداد کے تصورات کو ذہن نشین کر سکتے ہیں۔ ہم اس سچ کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرد و خواتین کو برابر حیثیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ زندگی، آزادی اور خوشی کی تلاش سب کا برابر کا حق ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا جمہوریت کسی حادثے سے پیدا نہیں ہوتی، ہمیں ہر نسل کے لیے اس کی تجدید کرنا پڑتی ہے اور اس وقت یہ بہت ضروری اور اہم کام ہے۔
امریکہ کے صدر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں شریک رہنماؤں کے نزدیک بھی ضروری نہیں کہ جمہوریت کی تعریف ایک ہی ہو۔ بقول ان کے، ''ہم سب کا ہر چیز پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہم مل کر جو فیصلے کرتے ہیں، وہ مستقبل کی ہماری مشترکہ نسلوں کے لیے اہم ہوتے ہیں''۔
انہوں نے کہا کہ وہ اقدار جو ہمیں متحد رکھتی ہیں، ان کے لیے ہمیں کھڑا ہونا ہو گا۔ ’’ہمیں انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔ تقریر کی آزادی، جلسے جلوسوں کی آزادی، آزاد میڈیا، مذہبی آزادی اور ہر فرد کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہو گا۔‘‘
اس موقع پر صدر بائیڈن نے امریکی امداد کے پروگرام 'یو ایس ایڈ' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم صحافیوں کے لیے نیا ’ ڈیفیمیشن ڈیفینس فنڈ‘ قائم کر رہے ہیں، تاکہ تحقیقاتی صحافیوں کو ایسے قانونی مقدموں کے خلاف تحفظ فراہم کر سکیں جو ان کو دنیا بھر میں ان کا کام کرنے سے روکتے ہیں۔
صدر کے بقول، ''ہم بدعنوانی کے خلاف بھی نیا پروگرام شروع کرنے والے ہیں جس میں سول سوسائٹی میں بدعنوانی کے خلاف سرگرمیوں، میڈیا، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد، مزدوروں اور مخبری کرنے والوں کو تحفظ فراہم کر سکیں اور منی لانڈرنگ اور چوری کی گئی رقوم کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ختم کر سکیں''۔
تجزیہ کاروں کا ردعمل:
نکول ببنز سیڈیکا، تھنک ٹینک 'فریڈم ہاوس' سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے لیے پیٹسی وداکوسوارا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے صدر جو بائیڈن کے جمہوری سربراہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب پر اپنے تبصرے میں کہا کہ صدر نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ گزشتہ پندرہ برس دنیا بھر میں جمہوریت کے اعتبار سے بحرانی ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے ابتدائی ریمارکس میں صدر نے، نکول ببنز کے مطابق، ان حالات کا بہترین انداز میں احاطہ کیا ہے جو اس وقت دنیا کو درپیش ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے اندر جمہوریت کو درپیش مشکلات بھی بیان کیں اور دنیا بھر میں جو چیلنجز سامنے آ رہے ہیں ان پر بھی بات کی۔ جیسے انہوں نے کہا کہ ’اتھاریٹیرین ازم‘ یعنی استبدادیت یا نظریہ تحکم پسندی پھیل رہا ہے اور اس سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔
اس موقع پر نکول ببنز سے سوال کیا گیا کہ صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں روس اور امریکہ کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہو سکتی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی کوشش جمہوریتوں کو استبدادی نظام کے خلاف متحد کرنا ہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ کسی کا نام لینے یا نہ لینے کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ اصل بات دنیا کو یہ بتانا تھا کہ 'اتھاریٹیرن ازم' کس طرح جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے خطرناک ہے۔ یہ ایک موجود خطرہ ہے جس کو ہم عالمی سطح پر دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کا جمہوریت سے متعلق اپنا ریکارڈ کیسا ہے، کیا اس کا گراف نیچے جا رہا ہے؟
اس سوال پر نکول ببنز نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ امریکہ کو بھی اپنے ملک کے اندر دیگر جمہوری ملکوں کی طرح چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہم ملک کے اندر اداروں کی سطح پر مشکلات دیکھ رہے ہیں جہاں انتخابات کے نتائج میں رد و بدل کے الزامات لگ رہے ہیں۔ ایسی چیزیں کوئی بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ ہم ایک ایسا ڈھانچہ چاہتے ہیں جو جمہوری ڈھانچہ ہو نہ کہ کسی ایک پارٹی یا دوسری پارٹی کے لیے بنا ہو۔ اس سے پہلے کہ ہم ان ادارہ جاتی ڈھانچہ جات سے استفادہ کریں، ہم ملک کے اندر نسلی بنیادوں پر انصاف کے لیے لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کسی ایک جماعت کو فائدہ پہنچانے والا نظام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو سب کو برابر مواقع فراہم کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی جماعتی وابستگیوں، ان کے عقیدے کی پرواہ کیے بغیر ان کو آزادی اظہار اور میل جول کی آزادی دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں ہے کہ سال 2020ء کے صدارتی انتخابات کے بعد کے حالات نے امریکہ کی جمہوری انڈیکس میں تنزلی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بقول، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا اپنے اداروں پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔
مائیکل کوگلمین واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک 'ولسن سنٹر' میں سینئر ایسوسی ایٹ اور ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی وداکوسوارا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کی جانب سے اس سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے پر اظہار خیال کیا۔
کوگلمین کے بقول، پاکستان کے اس فیصلے میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں زیادہ اچھے نہیں رہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وائٹ ہاوس نے، بشمول صدر بائیڈن، پاکستان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں اس بارے میں ناخوشی پائی جاتی ہے کہ صدر بائیڈن پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ایک ٹیلی فون کال تک کرنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے۔ دوسرا جب آپ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک معاشی اور دیگر مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ لہٰذا، اسلام آباد کے اس فیصلے کو ایک سیاسی قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں یہ فیصلہ بہت مقبول ہو گا جہاں بہت زیادہ امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی حکومت کو سیاسی فوائد مل سکتے ہیں خاص طور پر جب اس کو معلوم ہو کہ اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
جہاں تک یہ سوال کہ کچھ لوگوں کے بقول پاکستان کا یہ فیصلہ 'ون چائنا پالیسی' کی حمایت ہے اور تائیوان کو اس کانفرنس میں بلائے جانے کے خلاف احتجاج ہے، تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔ لیکن میرے خیال میں پاکستان کے اندرونی سیاسی عوامل چین فیکٹر سے زیادہ بڑی وجہ ہیں۔ اور میں ان قیاس آرائیوں میں زیادہ وزن نہیں دیکھتا کہ پاکستان پر چین کی طرف سے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے دباو تھا۔
مائیکل روبن، امریکی تجزیہ کار ہیں۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے جمہوریت پر سربراہ اجلاس میں پاکستان کو مدعو کیے جانے پر سوالات اٹھائے ہیں۔
’’اس کا جواز سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کو تو جمہوریت پر سربراہ کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے، لیکن بنگلہ دیش کو نہیں بلایا جاتا۔ جہاں تک گورننس کا معاملہ ہے دنوں ملکوں میں مسائل ہیں لیکن پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش کے اندر جمہوریت زیادہ مستحکم ہے۔ ان کے بقول، ایک تضاد یہ بھی ہے کہ امریکہ خود جمہوریت کے انڈیکس میں تنزلی کا شکار ہے اور اس کو بین الاقوامی تعلقات میں بھی اس حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔ بہرحال، ہمیں دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور ہم دنیا سے خود کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ مجھے لگتا ہے مستقبل میں حکومتیں زیادہ جمہوری ہوں گی۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ چونکہ میں ایران میں رہ چکا ہوں، وہاں زیادہ تر لوگ تھیوکریسی (مذہبی حکومت) نہیں چاہتے۔ بہت سے افغان شہری صدر غنی کے دور کی بدعنوانی کی شکایت کرتے ہیں، کوئی بھی افغان طالبان کی پابندیوں اور مسدود آزادیوں والی حکومت میں نہیں رہنا چاہتا۔‘‘