رسائی کے لنکس

کیمپ ڈیوڈ: عرب رہنماؤں کو ایران جوہری مذاکرات سے آگاہ کیا گیا


وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ خطے کی علاقائی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے خلیجی رہنماؤں کی مدد کے کام کو تیز کیا جائے گا، جس سلسلے میں غیر نیٹو کلیدی اتحادی کا درجہ دیا جا سکتا ہے

کیمپ ڈیوڈ کے صحت افزا مقام پر منعقدہ خلیجی عرب رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، صدر براک اوباما نے اُنھیں ایران کے ساتھ جوہری تنازع پر ہونے والے مذاکرات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا، جس کا مقصد اس معاملے پر ممکنہ سمجھوتے کی صورت میں اُن کی تشویش دور کرنا تھا۔

اس سے قبل، جمعرات کی شام وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ شرکاٴ نے سربراہ اجلاس کی پہلی باضابطہ نشست میں شرکت کی، جس میں ایران پر دھیان مرکوز رہا۔

پہلی نشست میں ہونے والی بات چیت پر وائٹ ہاؤس ذرائع نے بتایا ہے کہ اِس میں خلیج کی ریاستوں کو امریکہ کی جانب سے دفاعی بالسٹک مزائل اور سرحدی سکیورٹی کے ضمن میں دی جانے والی حمایت کو تیز کرنے کا معاملہ شامل تھا۔

واشنگٹن کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) کے فاصلے پر واقع اس صدارتی محل میں ہونے والے اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں جاری موجودہ عدم استحکام پر بھی دھیان مبذول رہے گا، جن تنازعات میں یمن، شام اور عراق شامل ہیں۔

اس سے قبل موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ صدر براک اوباما اور چھ خلیجی ممالک سے اعلیٰ عہدیدار جمعرات کو اعلیٰ سطحی اجلاس میں مشرقِ وسطیٰ، ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے اور عراق، شام، یمن اور لیبیا میں جاری لڑائی پر بات چیت کر رہے ہیں۔

خلیج تعاون کونسل کے ارکان سے مذاکرات بدھ کی شام وائٹ ہاؤس میں ایک عشائیے کے ساتھ شروع ہوئے۔

اوباما نے کہا کہ یہ ملاقات خلیج کے لیے ’ایک بہت مشکل وقت‘ میں ہو رہی ہے۔

ان کے ڈپٹی نیشنل سکیورٹی مشیر بین روڈز نے ’الحرہ‘ ٹیلی وژن چینل کو بدھ کو بتایا کہ اجلاس کا ایک مقصد فوجی صلاحیتوں کا جائزہ لینا اور یہ دیکھنا ہے کہ خلیجی ممالک کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔

روڈز نے کہا کہ ’’ہم نیٹو جیسے پابند کرنے والے معاہدے پر غور نہیں کر رہے، جو بہت گفت و شنید اور کئی سال کی محنت کے بعد تیار کیا گیا تھا، مگر ہم امریکہ کی جانب سے ایک واضح عزم کرنا چاہتے ہیں کہ بیرونی خطرات کی صورت میں امریکہ خلیجی ممالک کے دفاع کے لیے آئے گا۔ ہم نے ماضی میں بھی ثابت کیا ہے کہ اس میں افواج کا استعمال بھی شامل ہو سکتا ہے جیسا کہ خلیج کی جنگ کے دوران ہوا۔‘‘

خلیجی ریاستوں نے حریف ملک ایران کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کے ساتھ اپنے سکیورٹی رشتے کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں تشویش ہے کہ یہ معاہدہ علاقے میں ایرانی وقار میں اضافہ اور امریکہ کے دوسرے خلیجی ممالک سے تعلقات خصوصاً فوجی معاملات میں کمزور کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ امریکہ خلیج تعاون کونسل کے ساتھ اپنے سکیورٹی تعلقات کی قدر کرتا ہے۔

’’اس اجلاس میں اس پر بات چیت ہوگی کہ صدر اوباما کیوں سمجھتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کا بہتریں طریقہ مذکرات ہیں۔ صدر کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے، مگر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ خلیج تعاون کونسل کے بہترین مفاد میں بھی ہے۔‘‘

وائٹ ہاؤس میں عشائیے کی میزبانی سے پہلے اوباما نے سعودی ولی عہد محمد بن نائف اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان، جو شاہ سلمان کے صاحبزادے ہیں، سے ملاقات کی۔

صدر نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب کی ’’غیر معمولی دوستی‘‘ کی تاریخ 70 سال سے زیادہ پرانی ہے۔

انہوں نے یمن کے مسئلے پر اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی قائم کرنے پر بات چیت کی۔

اس اجلاس میں کویت اور قطر کے امیر جب کہ سعودی عرب، بحرین، اومان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ عہدیدار شرکت کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG