واشنگٹن —
صدر اوباما کا انٹیلی جنس اصلاحات متعارف کرانے کا اعلان
امریکہ کے صدر براک اوباما نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے اندرون و بیرونِ ملک جاری نگرانی اور جاسوسی کے پروگراموں میں کئی اصلاحات متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کو واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے امریکہ کے دوست اور اتحادی ممالک کے سربراہان کی جاسوسی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک خفیہ داروں کی نجی زندگیوں میں مداخلت سے متعلق امریکی شہریوں اور غیر ملکیوں کے تحفظات کو یکساں اہمیت دے گا۔
تاہم صدر اوباما نے واضح کیا کہ امریکی خفیہ ادارے دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے ارادے جاننے کے لیے کی جانے والی اپنی سرگرمیاں بدستور جاری رکھیں گے اور اس عمل پر کسی سے معافی نہیں مانگی جائے گی۔
امریکی محکمۂ انصاف کی عمارت میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خفیہ طور پر ہی اپنی سرگرمیاں انجام دینا ہوتی ہیں لہذا انٹیلی جنس اداروں کو یک طرفہ طور پر اپنی سرگرمیاں روکنے یا عام کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے جاری نگرانی اور جاسوسی کی کاروائیوں میں اس نوعیت کی اصلاحات متعارف کرائے گی جن کے نتیجے میں ان سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں لایا جاسکے۔
صدر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کے ٹیلی فون کالوں کے ریکارڈ تک خفیہ اداروں کو رسائی صرف عدالت کے حکم پر ہی دی جائے گی جب کہ اس ریکارڈ پر حکومتی کنٹرول کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
صدر اوباما نے عوامی شخصیات پر مشتمل ایک پینل تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا جو نگرانی اور جاسوسی سے متعلق معاملات کی سماعت کرنے والی خفیہ عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لیں گے۔
صدر اوباما نے نگرانی کے منصوبوں میں لائی جانے والی مجوزہ اصلاحات کے نفاذ پر نظر رکھنے کے لیے محکمۂ خارجہ اور وہائٹ ہاؤس میں نئے عہدیداران کی تعیناتی کا بھی اعلان کیا۔ صدر نے بتایا کہ یہ عہدیداران نئی پالیسی کی زد میں آنے والے بین الاقوامی اور امریکی حلقوں سے رابطے کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاسوسی اور نگرانی کے موجودہ پروگراموں کے ناقدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ کی سلامتی اور تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہیں جن سے نبٹنے کے لیے اس نوعیت کی انٹیلی جنس اہم کردار ادا کرتی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اکٹھی کی جانے والی انٹیلی جنس نے دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کی روک تھام میں مدد دی ہے لیکن اس انٹیلی جنس کو اکٹھا کرنے کے لیے کی جانے والی نگرانی اور جاسوسی نے شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے تحفظ سے متعلق سوالات کھڑے کردیے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ صدر براک اوباما نے گزشتہ سال اگست میں 'این ایس اے' کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس کا مقصد جاسوسی کے منصوبوں میں شفافیت اور ذمہ داروں کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنا تھا۔
مذکورہ کمیشن نے 'این ایس اے' کے منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لینے کےبعد امریکی صدر کو 46 سفارشات پیش کی ہیں جن میں سے کئی صدر اوباما کی جانب سے جمعے کو اعلان کی جانے والی اصلاحات میں شامل ہیں۔
صدر اوباما نے 'این ایس اے' کی سرگرمیوں کے اس جائزے کا حکم ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے کیے جانے والے انکشافات کے بعد کیا تھا جن کے باعث 'این ایس اے' امریکہ اور دنیا بھر میں گزشتہ کئی ماہ سے تنقید کا ہدف بنی ہوئی ہے۔
'این ایس اے' کے حکام کے مطابق ایڈورڈ سنوڈن امریکہ سے فرار ہوتے وقت ایجنسی کی 17 لاکھ سے زائد دستاویزات چرا کر ساتھ لے گئے تھے جنہوں نے امریکہ کے قومی سلامتی سے متعلق منصوبوں اور انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے۔
سنوڈن نے ان دستاویزات میں سے کئی دنیا کے بڑے اخبارات اور نشریاتی اداروں کو فراہم کردی تھیں جن کی جانب سے ان دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی رپورٹوں کی اشاعت کئی ماہ گزرنے کے باوجود تاحال جاری ہے۔
سنوڈن ان دنوں عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کےخلاف غداری اور سرکاری راز افشا کرنے جیسے الزامات کے تحت تفتیش جاری ہے۔
سنوڈن کی فراہم کردہ دستاویزات سے انکشاف ہوا تھا کہ 'این ایس اے' لاکھوں امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کے علاوہ کئی سربراہانِ مملکت، بین الاقوامی شخصیات اور عالمی اداروں کی جاسوسی بھی کر رہی ہے۔
جاسوسی کے ان انکشافات کے بعد کئی ممالک نے امریکہ سے وضاحت طلب کی تھی جب کہ خود امریکہ کے اندر بھی حکومت کی حدود اور شخصی آزادیوں کے تحفظ سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے جس نے امریکی حکومت کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
'این ایس اے' نے صدر براک اوباما کے حکم پر جاسوسی کے کئی منصوبوں پر کام روک بھی دیا ہے جب کہ صدر کے قائم کردہ کمیشن نے باقی منصوبوں کاجائزہ لے کر ان میں اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کی ہیں۔
صدر اوباما نے ان سفارشات کے علاوہ اس معاملے پر امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان، شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیموں کے عہدیداروں، اپنی کابینہ کے ارکان اور ارکانِ کانگریس کے ساتھ بھی کئی مشاورتی اجلاس کیے ہیں۔
کئی امریکی ججوں نے بھی 'این ایس اے' کی سرگرمیوں خصوصاً شہریوں کا ٹیلی فون ریکارڈ اکٹھا کرنے کے عمل کے خلاف ریمارکس دیے ہیں اور یہ معاملہ امریکی سپریم کورٹ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
صدر اوباما کا انٹیلی جنس اصلاحات متعارف کرانے کا اعلان
امریکہ کے صدر براک اوباما نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے اندرون و بیرونِ ملک جاری نگرانی اور جاسوسی کے پروگراموں میں کئی اصلاحات متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کو واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے امریکہ کے دوست اور اتحادی ممالک کے سربراہان کی جاسوسی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک خفیہ داروں کی نجی زندگیوں میں مداخلت سے متعلق امریکی شہریوں اور غیر ملکیوں کے تحفظات کو یکساں اہمیت دے گا۔
تاہم صدر اوباما نے واضح کیا کہ امریکی خفیہ ادارے دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے ارادے جاننے کے لیے کی جانے والی اپنی سرگرمیاں بدستور جاری رکھیں گے اور اس عمل پر کسی سے معافی نہیں مانگی جائے گی۔
امریکی محکمۂ انصاف کی عمارت میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خفیہ طور پر ہی اپنی سرگرمیاں انجام دینا ہوتی ہیں لہذا انٹیلی جنس اداروں کو یک طرفہ طور پر اپنی سرگرمیاں روکنے یا عام کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے جاری نگرانی اور جاسوسی کی کاروائیوں میں اس نوعیت کی اصلاحات متعارف کرائے گی جن کے نتیجے میں ان سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں لایا جاسکے۔
صدر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)' کی جانب سے عام امریکی شہریوں کے ٹیلی فون کالوں کے ریکارڈ تک خفیہ اداروں کو رسائی صرف عدالت کے حکم پر ہی دی جائے گی جب کہ اس ریکارڈ پر حکومتی کنٹرول کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
صدر اوباما نے عوامی شخصیات پر مشتمل ایک پینل تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا جو نگرانی اور جاسوسی سے متعلق معاملات کی سماعت کرنے والی خفیہ عدالت کے فیصلوں کا جائزہ لیں گے۔
صدر اوباما نے نگرانی کے منصوبوں میں لائی جانے والی مجوزہ اصلاحات کے نفاذ پر نظر رکھنے کے لیے محکمۂ خارجہ اور وہائٹ ہاؤس میں نئے عہدیداران کی تعیناتی کا بھی اعلان کیا۔ صدر نے بتایا کہ یہ عہدیداران نئی پالیسی کی زد میں آنے والے بین الاقوامی اور امریکی حلقوں سے رابطے کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جاسوسی اور نگرانی کے موجودہ پروگراموں کے ناقدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ کی سلامتی اور تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہیں جن سے نبٹنے کے لیے اس نوعیت کی انٹیلی جنس اہم کردار ادا کرتی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اکٹھی کی جانے والی انٹیلی جنس نے دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کی روک تھام میں مدد دی ہے لیکن اس انٹیلی جنس کو اکٹھا کرنے کے لیے کی جانے والی نگرانی اور جاسوسی نے شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے تحفظ سے متعلق سوالات کھڑے کردیے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔
خیال رہے کہ صدر براک اوباما نے گزشتہ سال اگست میں 'این ایس اے' کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس کا مقصد جاسوسی کے منصوبوں میں شفافیت اور ذمہ داروں کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنا تھا۔
مذکورہ کمیشن نے 'این ایس اے' کے منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لینے کےبعد امریکی صدر کو 46 سفارشات پیش کی ہیں جن میں سے کئی صدر اوباما کی جانب سے جمعے کو اعلان کی جانے والی اصلاحات میں شامل ہیں۔
صدر اوباما نے 'این ایس اے' کی سرگرمیوں کے اس جائزے کا حکم ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے کیے جانے والے انکشافات کے بعد کیا تھا جن کے باعث 'این ایس اے' امریکہ اور دنیا بھر میں گزشتہ کئی ماہ سے تنقید کا ہدف بنی ہوئی ہے۔
'این ایس اے' کے حکام کے مطابق ایڈورڈ سنوڈن امریکہ سے فرار ہوتے وقت ایجنسی کی 17 لاکھ سے زائد دستاویزات چرا کر ساتھ لے گئے تھے جنہوں نے امریکہ کے قومی سلامتی سے متعلق منصوبوں اور انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے۔
سنوڈن نے ان دستاویزات میں سے کئی دنیا کے بڑے اخبارات اور نشریاتی اداروں کو فراہم کردی تھیں جن کی جانب سے ان دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی رپورٹوں کی اشاعت کئی ماہ گزرنے کے باوجود تاحال جاری ہے۔
سنوڈن ان دنوں عارضی سیاسی پناہ پر روس میں مقیم ہیں جب کہ امریکہ میں ان کےخلاف غداری اور سرکاری راز افشا کرنے جیسے الزامات کے تحت تفتیش جاری ہے۔
سنوڈن کی فراہم کردہ دستاویزات سے انکشاف ہوا تھا کہ 'این ایس اے' لاکھوں امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کے علاوہ کئی سربراہانِ مملکت، بین الاقوامی شخصیات اور عالمی اداروں کی جاسوسی بھی کر رہی ہے۔
جاسوسی کے ان انکشافات کے بعد کئی ممالک نے امریکہ سے وضاحت طلب کی تھی جب کہ خود امریکہ کے اندر بھی حکومت کی حدود اور شخصی آزادیوں کے تحفظ سے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے جس نے امریکی حکومت کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
'این ایس اے' نے صدر براک اوباما کے حکم پر جاسوسی کے کئی منصوبوں پر کام روک بھی دیا ہے جب کہ صدر کے قائم کردہ کمیشن نے باقی منصوبوں کاجائزہ لے کر ان میں اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کی ہیں۔
صدر اوباما نے ان سفارشات کے علاوہ اس معاملے پر امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان، شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیموں کے عہدیداروں، اپنی کابینہ کے ارکان اور ارکانِ کانگریس کے ساتھ بھی کئی مشاورتی اجلاس کیے ہیں۔
کئی امریکی ججوں نے بھی 'این ایس اے' کی سرگرمیوں خصوصاً شہریوں کا ٹیلی فون ریکارڈ اکٹھا کرنے کے عمل کے خلاف ریمارکس دیے ہیں اور یہ معاملہ امریکی سپریم کورٹ تک پہنچنے کا امکان ہے۔