امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام اور عراق میں داعش کے زیرِ قبضہ 100 فی صد علاقہ آزاد کرالیا ہے اور وہ داعش کو مکمل شکست دینے تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔
منگل کی شب کیپٹل ہِل میں کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے اپنا سالانہ 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ سال وعدہ کیا تھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر داعش کا نام صفحۂ ہستی سے مٹادے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج ایک سال بعد وہ فخر سے یہ بتا رہے ہیں کہ "شام اور عراق میں داعش کے قاتلوں کے زیرِ قبضہ 100 فی صد علاقہ آزاد کرالیا گیا ہے۔"
گزشتہ سال جنوری میں صدر کا منصب سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا کانگریس سے یہ پہلا 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب تھا جو لگ بھگ ایک گھنٹہ 20 منٹ جاری رہا۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کی داخلی صورتِ حال، خارجہ پالیسی، امریکی معیشت اور اپنے دورِ صدارت کے باقی ماندہ تین برسوں میں اپنی حکومت کی ترجیحات اور اہداف سمیت کئی معاملات، مسائل اور گزشتہ ایک سال میں حاصل کی جانے والی اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ماضی کے تجربے سے امریکہ نے یہ سبق سیکھا ہے کہ رعایت اور قناعت کا رویہ اپنانے کے نتیجے میں سامنے سے جارحیت اور اشتعال انگیزی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ماضی کی امریکی حکومتوں کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جنہوں نے امریکہ کو ان کے بقول اس خطرناک مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وزیرِ دفاع جِم میٹس کو امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے متعلق پالیسیوں اور خلیجِ گوانتانامو میں موجود امریکی قید خانے کو کھلا رکھنے کے امکان کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
صدر نے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے ان کے فیصلے کے بعد درجنوں ایسے ممالک نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ کے خلاف ووٹ دیا جنہیں امریکی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے امداد ملتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کانگریس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا قانون منظور کرے جس کے نتیجے میں یہ یقینی بنایا جاسکے کہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی غیر ملکی امداد ہمیشہ امریکی مفادات کو فائدہ پہنچائے اور صرف امریکہ کے دوستوں تک ہی پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نہ صرف دنیا بھر میں اپنی دوستیاں مضبوط بنا رہا ہے بلکہ وہ اپنی دشمنیوں کے متعلق ابہام بھی دور کر رہا ہے۔
صدر نے اپنی تقریر میں کیوبا اور وینزویلا پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا اور اپنے پیش رو براک اوباما کے دور میں طے پانے والے ایران جوہری معاہدہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ معاہدے میں موجود ان کے بقول "بنیادی غلطیوں" کی اصلاح کرے۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ امریکہ شمالی کوریا کو ایسے جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے ہر ممکن دباؤ کی حکمتِ عملی پر کاربند ہے جو امریکہ کی سرزمین کے لیے خطرہ بن سکیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ کو دنیا بھر میں خود سر حکومتوں، دہشت گرد گروہوں اور چین اور روس جیسے مخالفین کا سامنا ہے جو امریکی مفادات، معیشت اور اقدار کو چیلنج کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان خطرات سے نبٹنےکے لیے وہ کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ امریکی فوج کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تمام تر وسائل فراہم کرے۔
افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہاں تعینات امریکی فوج کو اب مصنوعی ٹائم لائنز کا سامنا نہیں اور اب نہ ہی امریکہ اپنے دشمنوں کو پہلے سے یہ بتاتا ہے کہ اس کے منصوبے کیا ہیں۔
تاہم انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان کا ذکر نہیں کیا جسے وہ اور ان کی حکومت کے اعلیٰ حکام حالیہ ہفتوں کے دوران کئی بار امریکہ کو دھوکہ دینے اور دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا ملزم ٹہراتے رہے ہیں۔
امریکہ کی دفاعی ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کو ہر صورت اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید اور از سرِ نو بنانا ہوگا جو ان کے بقول کسی بھی قسم کی جارحیت کے امکان کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
اپنے خطاب میں داخلی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ میں مقیم تارکینِ وطن کو بھی امیگریشن سے متعلق ان کی حکومت کی پالیسیوں کا فائدہ پہنچے گا جن کا ہدف ان کے بقول امریکی محنت کشوں اور امریکی خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ امیگریشن سے متعلق نئے قانون پر بات چیت کر رہی ہے جس میں ان 18 لاکھ تارکینِ وطن کو امریکہ کی شہریت دینے کی شرائط شامل ہیں جو اپنے والدین کے ہمراہ بچپن میں غیر قانونی طور پر امریکہ آئے تھے۔
صدر نے کہا کہ مجوزہ قانون کے ذریعے میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی سرحد پر دیوار کی تعمیر اور امریکہ کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور فورس میں نئی بھرتیوں کی بھی منظوری دی جائے گی۔
امریکہ کے امیگریشن قوانین کو سخت بنانا اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک سے بے دخلی صدر ٹرمپ کا ایک اہم انتخابی وعدہ ہے جس کے نفاذ کے لیے وہ گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد سے کوششیں کر رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر نے کہا کہ وہ ایوان کی دونوں جماعتوں – ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز – کو ہر پسِ منظر، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرنے کی پیش کش کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم مل کر ایک ایسا محفوظ، مضبوط اور باوقار امریکہ تعمیر کر رہے ہیں جہاں ہر بچہ رات کو اپنے گھر میں محفوظ ہو اور ہر شہری کو اپنی ریاست پر فخر ہو۔
انہوں نے اپنی حکومت کی جانب سے متعارف کردہ ٹیکس اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان اصلاحات کے نتیجے میں چھوٹے کاروباری اداروں اور متوسط طبقے کو ان کے بقول بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔
صدر نے دعویٰ کیا کہ ان ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں صرف گزشتہ دو ماہ میں 30 لاکھ افراد کے ٹیکسوں میں کٹوتی ہوچکی ہے جب کہ ان کے دورِ صدارت کے پہلے ایک سال کے دوران 24 لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی عوام اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور ان کا حق ہے کہ انہیں ایک ایسی حکومت ملے جو ان سے بھی ویسی ہی محبت کرے اور ان کے ساتھ وفادار رہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے ایک برس حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرنے اور حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کی حکومت کئی دہائیوں سے جاری ان جانب دارانہ تجارتی معاہدوں سے الگ ہوگئی ہے جو ان کے بقول "امریکہ کی ترقی میں مزاحم تھیں اور جن کے نتیجے میں ہماری کمپنیاں، ہمارا روزگار اور ہماری قوم کی دولت" دوسروں کے ہاتھوں میں جا رہی تھی۔
منگل کی شب ہونے والے اس خطاب کو سننے کے لیے 'کیپٹل ہِل'میں امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان کے علاوہ نائب صدر مائیک پینس، خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ، امریکی سپریم کورٹ کے جج، فوجی قیادت، کئی اہم شخصیات اور ملک کی مختلف آبادیوں، نسلوں اور طبقوں کے نمائندہ عام امریکی شہری بھی موجود تھے۔
خطاب کے دوران ری پبلکن ارکانِ کانگریس اور دیگر شرکا بار بار کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے البتہ ڈیموکریٹ ارکان نے صدر کی تقریر پر کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔