جنوبی کوریا کے سینیئر حکام نے کہا ہے کہ چین کے صدر شی جنپنگ کی طرف سے جزیرہ نما کوریا میں اشتعال انگیزی سے متعلق بیان شمالی کوریا کے لیے انتباہی پیغام تھا۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد صدر شی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ چین "کسی بھی ایسے اقدم کے خلاف ہے جو جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کا سبب بنے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہو۔"
چینی صدر کا کہنا تھا اقوام متحدہ کے اقدامات "پوری طرح سے نافذ کیے جانے چاہیئں اور تمام متعلقہ فریقین کو جزیرہ نما کوریا کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔"
جنوبی کوریا کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر شی کا یہ بیان شمالی کوریا کی اس تازہ دھمکی کے تناظر میں سامنے آیا ہے کہ پیانگ یانگ طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ اور جوہری تجربے کر سکتا ہے۔
ان کے بقول چینی صدر کی طرف سے یہ اپنے اتحادی کے لیے انتباہ تھا۔
حکام کے بقول اس انتباہ کے باوجود بیجنگ کے پیانگ یانگ کے بارے میں موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ بیجنگ کی طرف سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد پر زور کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر شی نے یہ بات کھلے عام کہی ہے۔
پیر کو جنوبی کوریا کی صدر پارک گیئون ہئی نے بھی شمالی کوریا کو اشتعال انگیز اقدام سے باز رہنے کا کہا تھا۔
شمالی کوریا کے حکام کے یہ کہہ چکے ہیں کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ اور جوہری تجربہ کرنا پیانگ یانگ کا حق ہے اور "بحیثیت خودمختار ملک ایسا کرنا اس کا جائز ہے۔"