دنیا بھر میں صارفین کو روزمرہ کی خریداریوں میں زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ مارکیٹ میں اشیا کی فراہمی میں مسائل اور ایندھن کی قیمتیں ہیں جو کٓئی برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔
قمیتوں میں یہ اضافہ خوارک، لباس، گھریلو ضرورت کی چیزوں سے لے کر الیکٹرانک آلات، اور گاڑیوں اور مکانوں تک میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ صارفین کو اپنی خریداریوں کے لیے پہلے سے زیادہ رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے، جس کا اثر کم آمدنی والے گھرانے شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور انہیں محدود آمدنیوں کے پیش نظر اپنی کئی ضروری خریداریاں تک ترک کرنی پڑ رہی ہیں۔
امریکی حکومت کے کئی اعلیٰ عہدے دار لوگوں کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ قیمتوں میں یہ اضافہ عارضی نوعیت کا ہے اور کرونا سمیت بعض عوامل کے سبب سپلائی لائن متاثر ہونے سے مہنگائی ہوئی ہے۔ صورت حال معمول پر آنے کے بعد قیمتیں اپنی حقیقی سطح پر لوٹ آئیں گی۔ تاہم، معاشی ماہرین اس صورت حال کو مختلف انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
امریکہ کے مرکزی مالیاتی ادارے فیڈرل ریزو کے سربراہ جیروم پاول کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اشیا کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے افراط زر کا دورانیہ ہماری توقعات سے طویل ہو گیا ہے۔ جیسے ہی کاروبار معمول پر لوٹیں گے، مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
تاہم، معاشیات کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک ابھی تک ایسے اقدامات نہیں کر رہا جس سے قیمتوں کو نیچے لانے میں مدد مل سکے۔
واشنگٹن میں امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈیسمنڈ لیک مین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جو اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ افراط زر کی موجودہ صورت حال عارضی نہیں ہے۔
اس کی ایک مثال ایندھن کی قمیتیں ہیں جو پوری مارکیٹ کو متاثر کرتی ہیں۔ منگل کے روز عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت ساڑھے 82 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی جو گزشتہ تین سال کی بلند ترین قیمت ہے۔
رواں سال یورپ اور ایشیا میں قدرتی گیس کی قیمت تین گنا سے زیادہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں میں معاشی سست روی ہے اور چین میں بجلی گھروں کی بندش سے بجلی کی شدید کمی ہے جس سے کارخانوں کا پہیہ رک رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق امریکہ میں بھی صورت حال اسی جانب بڑھ رہی ہے اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سردیوں میں یہاں بھی قدرتی گیس کی قلت ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں افراط زر کا انڈیکس گرمیوں کے بعد سے 3 اعشاریہ 6 فی صد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ جو گزشتہ برسوں کی 2 فی صد سے بھی کم شرح کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر شعبے میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
دوسری جانب مرکزی بینک کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہا ہے جس سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سارے عناصر مل کر جو تصویر بناتے ہیں وہ قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھنے کی نشاندہی کرتی ہے۔
تاہم، جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر جوناتھن رائٹ کہتے ہیں کہ چیزوں کی فراہمی میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں جیسے کیلی فورنیا میں بحری جہازوں سے سامان مارکیٹوں تک پہنچانے کے لیے کنٹینروں کی قلت ہے، ریلوے کی مال بردار بوگیاں بھی دستباب نہیں ہو رہیں، لیکن یہ صورت حال رفتہ رفتہ کنٹرول میں آ جائے گی۔ اس سے قبل 1970 کے عشرے میں بھی مرکزی بینک نے افراط زر کی سطح پر کنٹرول کر لیا تھا۔
فراط زر اور مہنگائی کے سلسلے میں منگل کے روز پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامس کے صدر ایڈم پوسن، اور سینئر فیلو اور ہاورڈ یونیورسٹی کے اکنامکس کے پروفیسر کیرن ڈینن نے پریس سے بات کی۔
ڈینین کا کہنا تھا کہ ہم کئی عشروں تک امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں میں افراط زر کی سطح 2 فی صد تک رکھنے کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اس لیے مجھے یہ تجربہ نہیں ہے کہ چند مہینوں تک افراط زر کی اونچی سطح کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
پوسین کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ صارفین کی بڑھی ہوئی توقعات اور مرکزی بینک کی جانب سے افراط زر پر کنٹرول کا ایک زیادہ جارحانہ رویہ مل کر بین الاقوامی قیمتوں کو مسابقتی سطح پر رکھ سکتا ہے، جس سے افراط زر کے دباؤ کی نگرانی کرنے میں مدد ملے گی۔