ویلنگٹن میں نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں ایک خاتون سیاست دان سوریا پیک میسن نے منگل کو لیبرپارٹی کی نئی رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اس طرح اب پہلی بارنیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ مجلس قانون ساز میں اب 60 خواتین اور 59 مرد شامل ہیں۔
پیک میسن نے منگل کو ریڈیو نیوزی لینڈ کو بتایا کہ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی کچھ عرصے سے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ میرے لیے ایک خاص دن ہے، لیکن یہ اوٹیاروا نیوزی لینڈ کے لیے ایک تاریخی موقع بھی ہے۔ یہ صرف تھوڑی دیر کی بات ہےاور میرے خیال میں جلد ہی ہم سب مل کر معاملات کو چلائیں گے۔
تاہم نیشنل پارٹی کی قانون سازجوڈتھ کولنز نے منگل کو مقامی میڈیا کو بتایا کہ سیاست میں صنفی برتری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیوزی لینڈ میں تمام خواتین کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے، انہوں نےزور دیا کہ ابھی اس سلسلے میں مزید کام کرنا ہوگا۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار فل مرسر نے سڈنی سے ارسال کردہ رپورٹ میں بتایاہے کہ 1893 میں نیوزی لینڈ پہلا ملک تھا جس نے خواتین کو پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی تھی۔ کینیڈا اور برطانیہ کو ایسا کرنے میں مزید 25 سال لگے۔
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ نیوزی لینڈ کی سیاست میں صنفی نمائندگی کے حوالے سے منگل کا دن سنگ میل ثابت ہوا ہے جو "اہم اور خوش کن ہے۔"
پیک میسن وہ پہلی نئی قانون سازبھی ہیں جنہوں نے نئے بادشاہ چارلس سوم سےوفاداری کا حلف اٹھایاہے۔ برطانوی بادشاہ علامتی طور پر نیوزی لینڈ کا سربراہ مملکت بھی ہوتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد 1990 کی دہائی تک بہت کم رہی۔ خواتین کی شرکت میں 1996 میں اضافہ ہوا جب مخلوط ممبران کی متناسب نمائندگی کا ایک نیا ووٹنگ سسٹم متعارف کرایا گیا۔
نیوزی لینڈ جنوبی بحرالکاہل ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے۔