پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف چین میں ہونے والی دو روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعہ کو بیجنگ پہنچے ہیں۔
اتوار کو شروع ہونے والی اس کانفرنس کا افتتاح چین کے صدر شی جنپنگ کریں گے۔
یہ کانفرنس چین کے عالمی سطح پر ایک وسیع تجارتی نیٹ ورک کے فروغ کے لیے منعقد کی جا رہی ہے جس میں 27 ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔
واضح رہے کہ صدر شی جنپنگ نے ون بیلٹ ون روڈ نامی اس منصوبہ کے ایک حصہ کا افتتاح 2013 میں کیا تھا۔
لگ بھگ 50 ارب مالیت کا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بھی اسی منصوبے میں شامل ہے جس پر کام جاری ہے ہے۔
اس منصوبہ کے تحت چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے جوڑا جا رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان میں سڑکوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھانے کے علاوہ مواصلاتی ڈھانچے کی تعمیر، توانائی کے منصوبوں اور صنعتی زونز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد خطے کے دیگر ممالک بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال نے وی او اے سے جمعہ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "جو چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہے، سی پیک ( چین پاکستان اقتصادی راہداری) منصوبہ اس کا اہم ترین حصہ ہے یہ جو کانفرنس ہو رہی ہے اس میں ون بیلٹ ون روڈ ویژن کو واضح کیا جانا ہے۔"
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہو گا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے دیگر ملکوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر قائل کر سکیں۔
ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں شرکت کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف چین کے صدر شی جنپنگ اور وزیر اعظم لی کیچیانگ سے بھی ملاقات کریں گے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اس موقع پر پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ سے متعلق مزید متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط متوقع ہیں۔
ایک اعلیٰ سطح وفد بشمول پاکستان کے چار صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے وزیر اعظم کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا آغاز 2015 میں ہوا تھا اور ابتدا اس سے متعلق حزب اختلاف کی جماعتوں اور بعض صوبائی حکومتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
تاہم ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا نواز شریف کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کرنا یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت اور چار صوبائی حکومتوں کا اس منصوبہ کے بارے میں اتفاق رائے ہے۔