نپریانکا گاندھی کی بھارت کی عملی سیاست میں آمد کو نہرو گاندھی خاندان کے سیاسی سفر میں ایک بہتر پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
پیر کے روز پریانکا نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھارت کے سب سے گنجان آباد صوبے اتر پردیش میں کانگریس پارٹی کی انتخابی مہم کے ساتھ کیا۔ بھارت میں اس سال مئی میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے اچانک ہی اپنی چھوٹی بہن پریانکا کو جماعت کا جنرل سیکرٹری بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اتر پردیش میں وہ اپنی جماعت کا چہرہ ہوں گی۔ قومی اسمبلی میں قانون سازوں کی سب سے زیادہ تعداد اسی ریاست سے جاتی ہے۔ اس وقت یہاں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا غلبہ ہے۔
اگرچہ پریانکا ماضی میں بھی اپنی والدہ سونیا گاندھی اور اپنے بھائی راہول گاندھی کی انتخابی مہم کے انتظامات سنبھال چکی ہیں لیکن وہ کبھی پارٹی کے کسی عہدے پر فائز نہیں رہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے ہندی ورژن کے ایڈیٹر پرتاب سوم وانشی کہتے ہیں کہ کانگریس میں لیڈر تو بہت ہیں لیکن پریانکا عوام کے لئے بہت کشش رکھتی ہیں۔ ماضی میں انہوں نے جس طرح امیٹھی اور رائےبریلی میں مہم چلائی تھی اور وہاں ان کے گرد جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے، اور عوام سے رابطہ کرنے کا ان کا جو انداز تھا، اس سے لگتا ہے کہ جنوبی اتر پردیش میں، جہاں پریانکا انتخابی مہم چلا رہی ہیں، کانگریس کچھ کر دکھائے گی۔
معروف صحافی اور دانش ور ڈاکٹر منیش کمار کہتے ہیں کہ سیاست میں ان کی آمد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ سن 2004 سے ہی سیاست میں ہیں۔ یہ اسٹریٹیجی کا ایک حصہ ہے۔ سن 2004 کے بعد، بھارت میں جتنے بھی انتخاب ہوئے تھے، ہر انتخاب میں پریانکا گاندھی نے سیاسی مہم چلائی تھی۔ سن 2004 سے پہلے، جب سونیا گاندھی نے ملک بھر میں جلسے کر کے کانگریس کو متحرک کیا تھا اور بی جے پی کو شکست دے کر اپنی حکومت بنائی تھی تو اس انتخابی مہم کی مرکزی منصوبہ ساز پریانکا گاندھی ہی تھیں۔ سونیا گاندھی اس مہم کے دوران جو بھی تقریر کرتی تھیں، اس کا مسودہ پریانکا ایک اور شخص کے ساتھ مل کر لکھا کرتی تھیں۔
گزشتہ سال، صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو زرعی شعبے کی ناقص کارکردگی اور بے روزگاری کے دباؤ کی وجہ سے ناکامیوں کا سامنا رہا جس سے وزیر اعظم مودی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ اب کانگریس اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
47 سالہ پریانکا کی شکل و شباہت، اپنی دادی اور بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی سے بہت ملتی ہے۔ پریانکا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بطور مقرر ووٹروں کے ساتھ ایک تعلق پیدا کر لیتی ہیں۔ اندرا گاندھی ملک کی واحد خاتون وزیر اعظم تھیں، جنہیں ایک طاقت ور خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے پریانکا کو کانگریس پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر کیے جانے کو خاندانی سیاست کا نام دیا ہے۔
منیش کمار کہتے ہیں کہ بی جے پی کی تنقید درست ہے کیونکہ کانگریس پارٹی بنیادی طور پر گاندھی خاندان کا ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ جماعت اس خاندانی کی ملکیت ہے۔ اس لئے گاندھی خاندان کا کوئی بھی فرد ہو، چاہے وہ سونیا ہوں، راہول ہوں یا پریانکا ہوں، ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ ہو یا نہ ہو، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ پریانکا گاندھی پہلے بھی کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود پارٹی کے جنرل سیکرٹری سے زیادہ طاقتور تھیں۔
راہول گاندھی اور پریانکا کے ریاست اتر پردیش کے صدر مقام لکھنؤ پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا۔ لکھنؤ میں پریانکا تین روز قیام کریں گی اور 40 حلقوں سے آنے والے کارکنوں سے ملاقاتیں کریں گی۔
پرتاب سوموانشی کہتے ہیں کہ کانگریس نے ایک ایسا داؤ کھیلا ہے جس میں صرف فائدہ ہی فائدہ ہے اور کسی نقصان کا خطرہ نہیں ہے۔
کانگریس کے ایک حامی، 45 سالہ فضیل احمد خان کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے اندرا گاندھی لوٹ آئی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے کسان یہ چاہتے ہیں کہ راہول گاندھی وزیر اعظم ہوں، اور پریانکا ریاست کی وزیر اعلیٰ۔
پرتاب کہتے ہیں کہ کانگریس نے اتر پردیش میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کا اشارہ دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ پریانکا گاندھی اتر پردیش کی چیف منسٹر بنائی جا سکتی ہیں۔
تاہم منیش کمار کہتے ہیں کہ پریانکا وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ چیف منسٹر کے لئے الیکشن نہیں لڑیں گی کیونکہ وہ صرف یو پی تک ہی محدود نہیں رہیں گی، بلکہ وہ پورے بھارت میں کانگریس کی تصویر بن کر انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کانگریس پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
لیکن بھائی بہن کی اس جوڑی کے لئے، یہ سب اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اتر پردیش 22 کروڑ آبادی کی ایک غریب ریاست ہے۔ وہاں ذات برادی کی بنیاد پر پہلے ہی دو علاقائی جماعتیں، بی جے پی کے ساتھ مل کر اقتدار میں آنے کے لئے کوشاں ہیں، جس سے کانگریس پارٹی کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں، بی جے پی نے، 80 میں سے 73 نشستیں جیتی تھیں۔ بی جے پی کے صدر امیت شا نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی یہاں سے 74 نشستیں حاصل کرے گی۔
بھارت کے ایک معروف اخبار کے پولیٹیکل ایڈیٹر، ونود شرما کہتے ہیں کہ ایک چیز تو صاف نظر آ رہی ہے کہ 2014 میں کانگریس پارٹی کو اس ریاست میں بڑی شکست ہوئی تھی جس سے پارٹی کے کارکنوں میں مایوسی پھیلی، لیکن آج وہ تازہ دم ہو کر الیکشن کے اکھاڑے میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔
ونود کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں انتخابات ہارتی اور جیتتی رہتی ہیں، لیکن جذبہ برقرار رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ کانگریس پارٹی ہار رہی ہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں پورے اعتماد کے ساتھ انتخابات لڑ رہی ہیں۔
2009 کے انتخابات میں کانگریس پارٹی نے اتر پردیش میں 21 نشستیں حاصل کی تھیں، لیکن 2014 میں وہ صرف 2 نشستیں ہی جیت سکی تھی۔