پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی متوقع رکنیت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک اہم کامیابی ہے۔
شنگھانی تعاون تنظیم کا اجلاس اربکستان کے شہر تاشقند میں جمعرات کو شروع ہوا جس میں صدر ممنون حسین پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق توقع ہے کہ اس اجلاس میں پاکستان ’میمورینڈم آف اوبلیگیشنز‘ یعنی ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کرے گا جس سے پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بننے کی راہ ہموار ہو گی۔
گزشتہ سال روس کے شہر اوفا میں ہیڈز آف سٹیٹ کونسل میٹنگ میں پاکستان کی اس تنظیم میں شمولیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں وسطی ایشیا کے چار ممالک کے علاوہ چین اور روس بھی شامل ہیں اور پاکستان 2005 سے اس تنظیم کے اجلاسوں میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوتا رہا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبہ مکمل ہونے کے بعد وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی اور اقتصادی روابط میں وسعت کا امکان ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ توانائی کے اہم معاہدے کیے ہیں۔
گزشتہ سال دسمبر میں ترکمانستان سے ایک پائپ لائن کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس برآمد کرنے کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کاسا 1000 منصوبے کے تحت وسطی ایشیا سے بجلی درآمد کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
افغانستان میں سلامتی اور بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کے پیش نظر شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی متوقع رکنیت اور بھی اہمیت اخیتار کر گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ مکمل رکنیت ملنے کے بعد پاکستان کو ایک بین الاقوامی فورم دستیاب ہو گا جس سے وہ اپنی سفارتکاری کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
’’یہ مواقع ہوتے ہیں۔ کس حد تک آپ اس مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے یہ اصل چیلنج ہے۔ تو امید یہی کرنی چاہیئے کہ دفتر خارجہ جو نئے مواقع اس تنظیم کی رکنیت سے ملیں گے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کے لیے ان ممالک میں حمایت پیدا کر سکے گا۔‘‘
پاکستان کے ساتھ بھارت کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت دی جا رہی ہے۔
تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر صدر پاکستان نے چین کے صدر شی جنپنگ سے ملاقات کی جس میں انہوں نے پاکستان کی رکنیت کی حمایت کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔
صدر شی جنپنگ نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کی قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اقتصادی راہداری سے متعلق منصوبوں پر کام پر اپنے اطمینان کا اظہار کرنے کے علاوہ نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں پاکستان کی شمولیت پر بھی بات چیت کی۔
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر ممنون حسین نے کہا کہ اگر اس گروپ کی رکنیت کے لیے کسی ملک کو استثنیٰ دیا گیا تو اس سے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام کو خطرہ ہو گا۔
یاد رہے کہ جنوبی کوریا کے شہر سیول میں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کا اجلاس جاری ہے جس میں پاکستان اور بھارت کی رکنیت کی درخواستوں پر غور کیا جائے گا۔