رسائی کے لنکس

مذاکرات کامیاب؛ سوات میں اسکول وین پر حملے کے بعد دیا گیا دھرنا ختم


عسکریت پسندوں کے بچوں کے اسکول کی گاڑی پر حملے کے خلاف شرکا ڈرائیور کی لاش کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے بچوں کے اسکول کی گاڑی پر حملے کے خلاف شرکا ڈرائیور کی لاش کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑی پر عسکریت پسندوں کے حملے اور ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد دیا گیا دھرنا انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

سوات کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سہیل خان کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی ٹیم نے ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے خاندان اور علاقے کے معززین سے مذاکرات کیے۔

حکومت کی جانب سے واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انہیں قانون کے مطابق سزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

مذاکرات اور دھرنا ختم ہونے کے حوالے سے سینئر صحافی عیسیٰ خان خیل نے بتایا کہ حکومت نے ہلاک ڈرائیور کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی اور ان کے کمسن بچوں کی کفالت کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے متاثرہ خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کردیا ہے۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد ہلاک ہونے والے ڈرائیور کی نمازِ جنازہ بھی ادا کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب سوات میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے خلاف مینگورہ کے نشاط چوک میں احتجاج میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور سماجی کارکنوں نے کہا کہ سوات میں بدامنی برداشت نہیں کی جائے گی۔

مقررین نے کہا کہ شہریوں کو تحفظ دینا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

احتجاج میں مظاہرین سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین، جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، سوات قومی جرگہ کے رہنما اوردیگر نے بھی خطاب کیا۔

سوات میں مظاہرے سے خطاب میں منظور پشتین نے کہا کہ اگر یہ حالات اسی طرح جاری رہے تو وہ مستقبل میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے سامنے بھی مظاھرے کریں گے۔

قبل ازیں وادیٴ سوات کے علاقے چار باغ میں پیر کو اسکول وین پر عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے کے خلاف دوسرے روز بھی احتجاج ہوا۔

فائرنگ کے اس واقعے میں ڈرائیور ہلاک اور دو طلبہ زخمی ہوئے تھے ۔دونوں زخمی طلبہ کم سن ہیں جو اب بھی سیدو شریف کے مرکزی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جہاں ان کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

اسکو ل وین پر فائرنگ کے واقعے کے خلاف سوات میں منگل کو تمام نجی تعلیمی ادارے بطور احتجاج بند رہے جب کہ واقعے کے خلاف مٹہ ڈگری کالج کے طلبہ بھی سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔

اسکول وین پر حملے کے خلاف سیاسی اور مذہبی جماعتیں نے مشترکہ طور پر احتجاج کیا۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے مشترکہ طور پر مینگورہ کے نشاط چوک میں احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔

اقبل ازیں مقتول اسکول وین کے ڈرائیور کے ورثا مدین اور کالام روڈ پر لاش رکھ کر دھرنا دیا تھا، جس میں طلبہ سمیت سوات بھر سے مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی انجمنوں اور کاروباری تنظیموں سے منسلک افراد شریک ہوئے۔

نتیجہ خیز کارروائی کا مطالبہ

صحافی عیسیٰ خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظاہرین قاتلوں کی گرفتاری اور علاقے میں موجود مسلح نقاب پوش عسکریت پسندوں کے خلاف 'نتیجہ خیز 'کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوات پولیس نے اس واقعے میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

پولیس کا مؤقف ہے کہ اس واقعے میں بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑی کے ڈرائیور کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر وہ اس واقعے کو ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

عیسی خان خیل کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے ڈرائیور کے عزیز اور مقامی افراد نے پولیس کے اس مؤقف کو مسترد کیا ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس ذیشان اصغر نے ایک روز قبل وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ تحقیقات کے بعد اس واقعے کے اصل محرکات کے بارے میں کچھ بتایا جا سکتا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ کا نوٹس

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے آبائی ضلع سوات میں اسکول وین پر ہونے والی فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس معظم جاہ انصاری کو ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

حالیہ دنوں میں سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے بھی دہشت گردی کے پے در پے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مذاکرات ختم، جنگ شروع

سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات ختم ہو گئے ہیں اور اب باقاعدہ طور پر جنگ شروع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے خاتمے پر اب بھی کچھ ابہام موجود ہے، جس کی وجہ سے تشدد اور دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کو اس ابہام کو ختم کرنا ہوگا، جو ریاست کی عمل داری قائم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے، اگر یہ ابہام ختم نہ کیے گئے تو اس کے مزید خوف ناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

گھات لگا کر قتل کی وارداتوں کے بارے میں رانا عامر کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، ٹارگٹ کلنگ عسکریت پسند کرتے رہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے مخالفین، حکومتی اداروں یا حکومت کا ساتھ دینے والوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG