امریکہ میں مقیم پاکستانی مسیحی شہریوں کی ایک نمائندہ تنظیم نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
مظاہرے کے شرکا نے پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ گزشتہ ماہ تشدد کے واقعے میں ہلاک ہونے والے شہری ندیم جوزف کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور مظلوم خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے۔
مظاہرین کے مطابق 50 سالہ ندیم جوزف نے پشاور کی ٹی وی کالونی میں اپنے لیے ایک رہائشی مکان خریدا تھا۔ لیکن علاقے کے کچھ لوگوں نے ایک مسیحی کی مسلمانوں کی آبادی میں رہائش پر اعتراض کیا۔ بعد ازاں حملہ آوروں نے ندیم جوزف کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ جو پشاور کے ایک اسپتال میں کئی ہفتوں تک زیرِ علاج رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 29 جون کو انتقال کر گئے۔
ندیم جوزف کے خاندان نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آور سلمان خان نامی شخص ہے جس کا گھر اس مکان کے قریب ہی ہے جو ندیم جوزف نے خریدا تھا۔
مظاہرے کا اہتمام کرنے والی تنظیم 'اوور سیز پاکستانی کرسچن ایسوسی ایشن امریکہ' کے عہدیدار پیٹر جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظاہرین کرونا وائرس کے باوجود ندیم جوزف کے خاندان سے ہمدردی کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی امریکی مسیحی بیک آواز حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ندیم جوزف کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرے اور فوری انصاف کو یقینی بنائے۔
مظاہرین کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان میں مسیحی برادری کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی آئین کے مطابق اقلیتوں کو حاصل تمام حقوق دیے جائیں۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ پاکستانی حکومت کو اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق اس معاملے میں فوری انصاف کو یقینی بنانا چاہیے۔
مظاہرے میں شریک سنی گل کا کہنا تھا کہ احتجاج میں شریک تمام افراد محبِ وطن پاکستانی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مسیحی برادری کے حقوق سلب نہ کیے جائیں۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ میں کئی دہائیوں سے مقیم وکٹر گل نے کہا کہ پاکستان میں آئینی طور پر تو اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں۔ لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرے۔
راولپنڈی کے گورڈن کالج کے سابق پروفیسر سفیر عالم، بشپ جانسن البرٹ، پاسٹر جسٹن بھٹی اور پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر غزالہ قاضی نے بھی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں مسیحی برادری کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اگرچہ پاکستان نے حالیہ کچھ برسوں میں اقلیتوں کی فلاح کے حوالے سے اقدامات کیے ہیں جن میں آسیہ بی بی کی بحفاظت رہائی اور کرتارپور گردوارے کو کھولنا شامل ہے۔ تاہم ملک میں ابھی بھی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔