واشنگٹن —
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ پڑوسی کی مبینہ جنسی زیادتی کےخلاف احتجاجی مظاہروں میں شدت آگئی ہے جب کہ پولیس نے مبینہ ملزم کو حراست میں لے لیا ہے۔
بھارتی دارالحکومت کی پولیس نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے منوج کمار نامی 22 سالہ ملزم کو گرفتار کرلیا ہے جو مبینہ طور پر بچی کو اغوا کرنے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پڑوسی ریاست بہار فرار ہوگیا تھا۔
ایک پولیس افسر کے مطابق ملزم کو بہار سے نئی دہلی منتقل کردیا گیا ہے جہاں اس سے تفتیش جاری ہے۔ پولیس کو اب تک دستیاب اطلاعات کے مطابق ملزم نے یہ تمام کاروائی اکیلے ہی انجام دی تھی۔
ہفتے کو مسلسل دوسرے روز بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکن دہلی کے اس سرکاری اسپتال کے باہر جمع ہوئے جہاں متاثرہ بچی کو علاج کی غرض سے جمعرات کوداخل کرایا گیا تھا۔
شہر کے کئی اور مقامات بشمول پولیس ہیڈ کوارٹر، حکمران جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کی رہائش گاہ اور بھارتی وزیرِ داخلہ کے گھر کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق متاثرہ بچی کی حالت میں بہتری آئی ہے لیکن اسے تاحال انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔
بچی کے والدین مزدور اور دہلی کے نواح میں قائم ایک کچی بستی کے رہائشی ہیں جہاں سے بچی 15 اپریل کو لاپتہ ہوگئی تھی۔
والدین کی جانب سے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے بعد پولیس نے جمعرات کو ان کے پڑوسی کے گھر چھاپہ مار کے لڑکی کو زخمی اور بے ہوش حالت میں بازیاب کرایا تھا۔
حکام کے مطابق گھر کا مالک پولیس کی آمد سے قبل فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس نے دو دن تک بچی کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے دوران میں اسے مبینہ طور پر جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے بچی کے والدین کے اس الزام پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ جب انہوں نے بچی کی گمشدگی پر علاقے کے تھانے میں رابطہ کیا تو پولیس اہلکاروں نے انہیں مقدمہ درج نہ کرانے کے عوض دو ہزار روپے کی پیش کش کی تھی۔
بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے واقعے پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور اپنے بیانات میں معاشرے میں اس طرح کے جرائم کی وجوہات کا تعین کرنے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں نئی دہلی میں چھ افراد نے چلتی بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بس سے پھینک دیا تھا جو بعد ازاں دورانِ علاج جانبر نہ ہوسکی تھی۔
واقعے کے بعد سے بھارت میں حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین متعارف کرانے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔
بھارتی دارالحکومت کی پولیس نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے منوج کمار نامی 22 سالہ ملزم کو گرفتار کرلیا ہے جو مبینہ طور پر بچی کو اغوا کرنے اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پڑوسی ریاست بہار فرار ہوگیا تھا۔
ایک پولیس افسر کے مطابق ملزم کو بہار سے نئی دہلی منتقل کردیا گیا ہے جہاں اس سے تفتیش جاری ہے۔ پولیس کو اب تک دستیاب اطلاعات کے مطابق ملزم نے یہ تمام کاروائی اکیلے ہی انجام دی تھی۔
ہفتے کو مسلسل دوسرے روز بھی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکن دہلی کے اس سرکاری اسپتال کے باہر جمع ہوئے جہاں متاثرہ بچی کو علاج کی غرض سے جمعرات کوداخل کرایا گیا تھا۔
شہر کے کئی اور مقامات بشمول پولیس ہیڈ کوارٹر، حکمران جماعت کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کی رہائش گاہ اور بھارتی وزیرِ داخلہ کے گھر کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق متاثرہ بچی کی حالت میں بہتری آئی ہے لیکن اسے تاحال انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا ہے۔
بچی کے والدین مزدور اور دہلی کے نواح میں قائم ایک کچی بستی کے رہائشی ہیں جہاں سے بچی 15 اپریل کو لاپتہ ہوگئی تھی۔
والدین کی جانب سے بچی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے بعد پولیس نے جمعرات کو ان کے پڑوسی کے گھر چھاپہ مار کے لڑکی کو زخمی اور بے ہوش حالت میں بازیاب کرایا تھا۔
حکام کے مطابق گھر کا مالک پولیس کی آمد سے قبل فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس نے دو دن تک بچی کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے دوران میں اسے مبینہ طور پر جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس نے بچی کے والدین کے اس الزام پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ جب انہوں نے بچی کی گمشدگی پر علاقے کے تھانے میں رابطہ کیا تو پولیس اہلکاروں نے انہیں مقدمہ درج نہ کرانے کے عوض دو ہزار روپے کی پیش کش کی تھی۔
بھارتی صدر پرناب مکھرجی اور وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے واقعے پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور اپنے بیانات میں معاشرے میں اس طرح کے جرائم کی وجوہات کا تعین کرنے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں نئی دہلی میں چھ افراد نے چلتی بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بس سے پھینک دیا تھا جو بعد ازاں دورانِ علاج جانبر نہ ہوسکی تھی۔
واقعے کے بعد سے بھارت میں حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین متعارف کرانے کی تحریک شروع کر رکھی ہے۔