صوبہ خیبر پختونخوا میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ضم ہونے والے فاٹا کے 12 اضلاع میں 20 جولائی کو پہلی بار صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخابات ہوں گے۔ ان انتخابات میں تقریباً 28 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
خیبر پختونخوا کی 16 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے ہونے والے ان انتخابات میں لگ بھگ 297 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا، جس کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے 1895 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے جائیں گے۔
فاٹا کے 12 اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں کیا گیا تھا، جس کے مطابق، ان اضلاع میں عام انتخابات کے ایک سال بعد صوبائی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے دو جولائی کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم، خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے امن و امان کی صورتحال اور انتظامی مسائل کی بنیاد پر الیکشن کمیشن سے انتخابات 20 روز کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی، جس کے بعد اب 20 جولائی کو انتخابات ہونے والے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
گزشتہ سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں سابق فاٹا کے قومی اسمبلی کے 12 میں سے چھ حلقوں میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی تھی۔ متحدہ مجلس عمل کے تین، پیپلز پارٹی ایک جبکہ یہاں سے دو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
پاکستان میں عام انتخابات اور ان کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کی تاریخ دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکمران جماعت کو ضمنی انتخابات میں دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہوتی ہے، حتٰی کہ عام انتخابات میں جن نشستوں پر حکمران جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضمنی انتخابات میں ان حلقوں میں بھی نتائج حکمران جماعت کے حق میں آنے کی روایت رہی ہے۔
صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے نام
باجوڑ ایجنسی کا ضلع جو کہ قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 40 اور 41 میں تقسیم تھا۔ ان انتخابات میں ضلع باجوڑ کو صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پی کے 100 سے لے کر پی کے 102 میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی یہ دونوں نشستیں حکمران جماعت پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔
مہمند ایجنسی پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے این اے 42 ٹرائبل ایریا 3 کو ان صوبائی انتخابات میں 2 نشستوں پی کے 103 اور 104 میں تقسیم کیا گیا ہے، جبکہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 36.04 فیصد تھا اور یہ نشست بھی پی ٹی آئی کے ساجد خان نے جیتی تھی۔
خیبر ایجنسی پر مشتمل قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 43 اور 44 میں صوبائی اسمبلی کے تین حلقے پی کے 105 سے 107 تک آتے ہیں، جہاں سے عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے نور الحق قادری اور محمد اقبال خان کامیاب قرار پائے تھے۔
کرم ایجنسی کو صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی کے 108 اور 109 میں تقسیم کیا گیا ہے، جو کہ قومی اسمبلی کے بھی دو حلقوں این اے 45 اور 46 میں آتے ہیں۔ عام انتخابات میں این اے 45 سے متحدہ مجلس عمل کے منیر خان اورکزئی اور این اے 46 سے پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری کامیاب ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے امیدوار جواد حسین اورکزئی عام انتخابات میں اورکزئی ایجنسی کے حلقہ این اے 47 سے کامیاب قرار پائے تھے اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ضلع اورکزئی کو پی کے 110 بنایا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان ایجنسی جو کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 48 میں شامل تھی۔ صوبائی انتخابات میں ضلع شمالی وزیرستان کے دو حلقوں پی کے 111 اور 112 میں تقسیم کیا گیا ہے۔
عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے آزاد امیدوار محسن داوڑ 16526 ووٹ حاصل کر کے کامیاب قرار پائے تھے، جنھیں ایم ایم اے کے امیدوار مصباح الدین سے صرف 1163 ووٹ زیادہ ملے تھے۔
پی کے 113 اور پی کے 114 جنوبی وزیرستان میں آتے ہیں، جو کہ قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 49 اور 50 بنتے ہیں۔ عام انتخابات میں ان حلقوں سے ایم ایم اے کے محمد جمال الدین اور آزاد امیدوار علی وزیر کامیاب ہوئے تھے، جبکہ عام انتخابات میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ 20.71 این اے 49 میں ریکارڈ کیا گیا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 50 میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے آزاد امیدوار علی وزیر 23 ہزار سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کا آخری حلقہ پی کے 115 ایف آر ٹرائبل ایریا پر مشتمل ہے، جو کہ قومی اسمبلی کا این اے 51 بنتا ہے۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے ایم ایم اے کے امیدوار عبدالشکور 21962 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ یہاں سابق فاٹا کے 12 قومی اسمبلی کے حلقوں میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ 64.26 فیصد رہا تھا۔
کیا پشتون تحفظ تحریک اثرانداز ہو گی؟
ماضی میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور فاٹا کے 12 قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج دیکھے جائیں تو مقامی تجزیہ کاروں کو یہی لگتا ہے کہ حکمران جماعت باآسانی ان صوبائی انتخابات میں زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ تاہم، قبائلی مبصرین کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے بعد اہمیت حاصل کرنے والی پشتون تحفظ تحریک اور اس کے رہنماؤں کے خلاف ہونے والے سیکورٹی اداروں کی کاروائیاں ان انتخابات پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
دو اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے حلقوں میں آنے والے پی کے 111, 112 اور 114 میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ہونے والے ان انتخابات کے نتائج کا اثر خیبر پختونخوا اسمبلی پر نہیں پڑے گا، جہاں پہلے ہی حکمراں جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس 65 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 26 نشستیں ہیں۔
فاٹا کی دو قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 48 اور 49 سے منتخب ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر اس وقت سیکورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک عام انتخابات کے بعد فاٹا میں پشتون تحفظ تحریک مضبوط ہوئی ہے۔ لہذٰا، یہ پہلو ان انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔