پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ '’خوشخبری دے رہا ہوں کہ ہم نئے پاکستان کا میچ جیت چکے ہیں۔۔۔ نئے پاکستان میں زندگی کے تمام شعبہ جات میں اصلاحات لائی جائیں گی، کارآمد پالیسیوں پر عمل درآمد ہوگا، جس سے سب سے لیے بہتری اور ترقی کی راہیں کھلیں گی۔''
انہوں نے کہا کہ وہ ایسے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں غربت کا خاتمہ ہوگا؛ ملک مثالی ترقی کرے گا؛ اور لوگ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کو ترجیح دیں گے؛ سرکاری اسپتالوں میں بہترین علاج میسر ہوگا، اسپیشلائزیشن کی سہولیات صرف نجی اسپتالوں تک محدود نہیں رہیں گی۔‘‘
عمران خان نے ان خیالات کا اظہار اتوار کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں اپنی پارٹی کی جانب سے ’یوم تشکر‘ کے حوالے سے منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کے دوران کیا، جس میں اُنھوں نے آئندہ حکمتِ عملی کا تفصیلی اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ''ہم پاکستان میں ایسا انصاف چاہتے ہیں جو مثالی ہو، اور احتساب کی ابتدا اور عمل درآمد بڑے لوگوں اور اعلیٰ ایوانوں سے شروع ہوگا''۔
عمران خان نے کہا کہ سیاسی، معاشی اور مالیاتی اصلاحات کے نتیجے میں بیرون ملک سے لوگ پاکستان آئیں گے۔ اس ضمن میں، اُن کا کہنا تھا کہ نیب اور ایف آئی اے کے ادارے خودمختار ہوں گے؛ پولیس کا نظام بہتر بنایا جائے گا، جس کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کار پاکستان آئیں گے۔
انہوں نے اس بات کا عہد کیا کہ ''پاکستان کو کسی کے آگے جھکنے نہیں دیں گے۔ میریٹ کا نظام لایا جائے گا، جو تمام اداروں میں رائج ہوگا۔‘‘
انھوں نے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا جو48 گھنٹے کے مختصر نوٹس پر اتنی بڑی تعداد میں اور سخت گرمی کے باوجود گھنٹوں سے جلسہ عام میں موجود رہے۔
عمران خان نے کہا کہ ''مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ آج پاکستان کے عوام ملک کے مسائل سے آگاہ ہیں''؛ اور یہ کہ آج وہ ''ایک زندہ قوم کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں''۔
انہوں نے جلسے میں آنے والی خواتین کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس قوم کی خواتین جاگ اٹھی ہوں انہیں ترقی کی راہ سے کوئی روک نہیں سکتا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی والدہ کو بھی یاد کیا اور کہا کہ ان کی شخصیت بنانے میں ان کی والدہ کا سب سے بڑا کردار ہے۔
رشوت اور بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے، عمران خان نے کہا کہ ''نواز شریف کے بعد، اب آصف علی زرداری کی باری ہے''۔
انہوں نے سپریم کورٹ بینچ میں موجود پانچ ججوں اور جے آئی ٹی کے ارکان کی تعریف کی اور سلام پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں بے شمار حضرات نے عدالت جانے کے اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
عمران خان کے علاوہ شاہ محمود قریشی، وزیرا علیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، جہانگیر ترین، شیخ رشید، اسد عمر اور دیگر نے بھی جلسہ عام سے خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں، شیخ رشید نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان مستقبل کے لیڈر ہیں، جو آئندہ کی سوچ رکھتے ہیں''۔
شیخ رشید نے اپنی مختلف ’پیش گوئیوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ 2017 نواز شریف کا آخری سال ہوگا جو سچ ثابت ہوا۔
شیخ رشید نے اپنے خطاب کے دوران 'جے یو آئی (ف)' کے سربراہ، مولانا فضل الرحمٰن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے '’اسلام کے بجائے اسلام آباد کو ترجیح دی''۔
بقول اُن کے، ''چور سے چور کی نہیں، چور سے چوکیدار کی تبدیلی چاہتے ہیں''۔
انہوں نے کہا کہ عمران کے ہوتے ہوئے، ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا''۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک نے اپنے خطاب میں لاہو ر کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ '’لاہور والو، شہباز شریف سے مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ انتخابات میں شہباز شریف کی شکست ہوگی۔ جیسا کہ عدالت میں شکست ہوئی، عوامی عدالتوں میں بھی آپ کو اُنھیں شکست دینی ہے۔''
جہانگیر ترین نے اپنے خطاب میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کیس اور ماڈل ٹاؤن میں بہائے گئے لہو کا حساب دینا ہوگا۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ''لندن میں شریف برادران کی 16 کمپنیاں ہیں اور حدیبیہ پیپر ملز کا کیس ایک ہفتے میں کھل جائے گا۔ اقامہ تو محض شروعات ہے''۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ ''نواز کو جاتا اور عمران کو آتا ہوا دیکھ رہے ہیں''۔
بقول اُن کے، ''جنوبی پنجاب کا غریب کہتا ہے مجھے تخت لاہور سے آزادی چاہیئے۔ عوام بدعنوانوں کو دیکھ کر تھک چکی ہے۔ قوم عمران خان کو پکار رہی ہے''۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کی قیادت میں ''مثالی نیا پاکستان بنے گا۔‘‘
جلسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جو عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے امڈ آئے تھے۔
اسلام آباد کے علاوہ ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں سے تحریک انصاف کے کارکن وقفے وقفے سے قافلوں کی صورت میں جلسہ گاہ پہنچتے رہے، جن میں خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔
تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ جلسہ گاہ میں 30 ہزار افراد کے بیٹھنے کے انتظامات کئے گئے ہیں، جبکہ اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا تھا کہ گراؤنڈ میں ساڑھے 9 ہزار نشستیں رکھی گئی ہیں۔
اسلام آباد پولیس نےسخت سیکورٹی انتظامات کیے تھے۔جلسےکی سیکورٹی کے لیے 1600 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے رضاکاروں نے بھی جلسے کی سیکورٹی کے انتظامات سنبھالنے میں حصہ لیا۔
جلسہ گاہ میں داخلے کے لیےتین راستے بنائے گئے تھے، جن پر 'واک تھرو گیٹس' لگے ہوئے تھے، جبکہ بغیر تلاشی کے کسی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔