پختون تخفظ تحریک کی طرف سے نامزد کردہ جرگے کے اراکین نے اتوار کے روز حکومت کے نمائندوں پر مشتمل جرگہ ممبران کے ساتھ ایک مختصر اجلاس کے بعد آئندہ ہر قسم کے مذاکرات سے علیحدٰگی کا اعلان کر دیا۔
پختون تخفظ تحریک کے جرگہ ممبر فضل خان ایڈوکیٹ نے حکومتی جرگہ سے مذاکرات کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک طرف حکومت اپنے ہی جرگے کو پختون روایات کے مطابق واک یعنی احتیار دینے سے گریز کررہی ہے تو دوسری طرف مذاکرات کے دوران ہی تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف کاروائیاں کی جارہی ہے
فضل خان ایڈوکیٹ نے مذاکرات کے دوران تحریک کے خلاف کی گئی کاروائیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پختون روایات کے مطابق جرگہ کے ذریعے مذاکرات کے دوران فریقین میں مکمل جنگ بندی ہوتی ہے۔
حکومت یا حکومتی جرگہ کے جانب سے پختون تخفظ تحریک کے اس فیصلے پر ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
حکومت اور پختون تخفظ تحریک کے درمیان پختونوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے پچھلے مئی میں سابق ممبر قومی اسمبلی حاجی شاہ جی گل آفریدی کی کاوشوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ حکومتی جرگہ کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی عہدیداروں نے بھی پختون تخفظ تحریک کے طرف سے پیش کردہ مطالبات کو درست قرار دیاتھا۔ مگر تحریک کی جانب سے حکومتی ادارو ں بالخصوص فوج کے خلاف موقف کو غیرمناسب قراردیا جارہاہے۔
پختون تخفظ تحریک کا قیام پچھلے جنوری کے وسط میں کراچی پولیس کے جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے مرنے کے بعد اس وقت ہوا جب ملک بھر میں اس واقع کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔ تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک مکمل طور پر پرامن اور عدم تشدد پر مبنی ہے اور ان کے پیش کردہ مطالبات آئین کے عین مطابق ہیں۔