پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے بدھ کو اسلام آباد میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی طرف سے حال ہی میں عورتوں کے تحفظ کے لیے منظور کیا گیا قانون اسلام اور پاکستان کے آئین کے منافی ہے۔
اس قانون میں عورتوں کے خلاف جسمانی و ذہنی تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے اور عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے جامع طریقہ کار وضع کیا ہے۔
پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ قانون مختلف حلقوں سے ایک سال کی مشاورت کے بعد بنایا گیا ہے اور یہ اسلام اور آئین کے عین مطابق ہے۔
’’آئین کا آرٹیکل 25 (3) عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنانے کی اجازت دیتا ہے تاکہ ان کی برابری اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ (قانون) بالکل آئینی ہے اور اسلام کے بالکل منافی نہیں کیونکہ اسلام تو ایسا دین ہے جس میں رحمدلی، برابری اور انصاف پر اتنی زیادہ توجہ دی گئی ہے۔‘‘
فوزیہ وقار نے مزید پوچھا کہ جب پیغمر اسلام نے کہا کہ ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے ہیں‘‘ تو کیا وہ چاہیں گے کہ عورت پستی رہے، مار کھاتی رہے اور اس کی کوئی شنوائی نہ ہو؟
انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنی رائے دینے کا حق ہے مگر وہ نہیں سمجھتیں کہ اس سے قانون کو کوئی فرق پڑے گا۔
رواں ہفتے پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اس قانون کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستانی ریاست تشدد کرنے والے ظالموں کے خلاف کمزور اور مظلوم طبقات کے ساتھ کھڑی ہے۔
دریں اثنا سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے پیر کو عورتوں کو بااختیار بنانے کے متعلق نشینل ویمن ایمپارمنٹ پالیسی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو رواں ہفتے کے اختتام تک اپنی سفارشات پیش کرے گی۔