بیلا روس کے صدر الیکزینڈر لوکاشینکو نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کریملن کے خلاف مختصر سی ناکام مسلح بغاوت کے بعد کرائے کے فوجیوں کے گروپ واگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن اب بیلا روس پہنچ گئے ہیں۔ انہیں اس سمجھوتے کے ایک حصے کے طور پر بیلا روس جلا وطن کیا گیا ہے۔ جس کے تحت اختتام ہفتہ ہونے والی بغاوت ختم ہوئی۔
لوکا شینکو نے منگل کے روز کہا کہ یوگینی پریگوزن اور انکے کچھ فوجی بڑے شوق سے آنے والے کچھ وقت کے لئے اپنے خرچ پر بیلا روس میں رہ سکتے ہیں۔
دریں اثناء روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ واگنر گروپ پاس موجود بھاری ہتھیاروں کا ذخیرہ ، روسی فوج کے حوالے کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ روسی حکام نے بتایا کہ انہوں نے بغاوت کی مجرمانہ تحقیقات بند کردی ہے۔ اور مذاکرات کے ذریعے ہونے والے سمجھوتے کے بعد اب پرگوزن یا انکے فوجیوں کے خلاف کوئی الزامات عاید نہیں کئے جارہے ہیں.
قبل ازیں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ ہفتے واگنر گروپ کی بغاوت میں متعدد روسی پائلٹوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے اور بغاوت کا الزام 'روس کے دشمنوں' پر عائد کیا ہے۔
واگنر گروپ کی جانب سے ہفتے کو ہونے والی مسلح بغاوت کے بعد پوٹن پیر کی شب پہلی بار منظر عام پر آئے اور انہوں نے قوم سے خطاب کیا۔
پوٹن نے اس خطاب میں تسلیم کیا کہ واگنر گروپ کی بغاوت میں روسی پائلٹ ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ روس نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ اس کی فوج کے کتنے طیارے یا ہیلی کاپٹرز تباہ ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق روسی فوج کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والوں نے جن میں بلاگ ’رائے بار‘ بھی شامل ہے، میسجنگ ایپلی کیشن ٹیلی گرام پر بتایا کہ ہفتے کو ہونے والی بغاوت میں روس کے کم از کم 13 پائلٹ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تین جنگی ہیلی کاپٹر اور ایک طیارے کے عملے سمیت تباہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
ان دعوؤں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا ہے کہ روس کا طیارہ اور ہیلی کاپٹر کیسے تباہ ہوئے۔ واضح رہے کہ ’رائے بار‘ بلاگ کو ٹیلی گرام پر 10 لاکھ سے زائد افراد فالو کر رہے ہیں۔
پیر کو پوٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہلاک ہونے والے بہادر پائلٹوں نے جان کی قربانی دے کر روس کو ہولناک نتائج سے محفوظ رکھا۔
پوٹن کے مطابق ان کی ہدایت پر ہی تمام اقدامات کیے گئے تھےتاکہ کوئی خون خرابہ نہ ہو۔
واضح رہے کہ واگنر گروپ نے بغاوت کے بعد روس کے ایک شہر پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے روسی دارالحکومت ماسکو کی جانب پیش قدمی کا اعلان کر دیا تھا۔ بعد میں پڑوسی ملک بیلاروس کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا اور واگنر گروپ نے بغاوت ختم کر دی تھی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے اسی معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ وقت کی ضرورت تھی کہ ان افراد کو موقع دیا جائے جنہوں نے غلطی کی اور ان کے حواس بحال ہوں تاکہ وہ اس حقیقت سے آشنا ہو سکیں کہ عوام نے ان کے اقدامات کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کے بقول واگنر گروپ نے مہم جوئی کے ذریعے روس میں المناک اور تباہ کن نتائج سامنے لانے کی کوشش کی۔
روسی وزارتِ دفاع کی جانب سے جنگجوؤں کو نئے کانٹریکٹ کی پیشکش کی جائے گی یا اگر یہ جنگجو واپس عام زندگی کی جانب لوٹنا چاہیں تو ان کو اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے کا حق ہوگا۔
روسی صدر نے واگنر گروپ کے ان جنگجوؤں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے بغاوت میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واگنر گروپ کی اکثریت محبِ وطن ہے۔
صدر پوٹن نے اپنے خطاب میں واگنر گروپ کے سربراہ یوگنی پریگزون کا ذکر نہیں کیا۔ قبل ازیں انہوں نے ملک کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کے ساتھ بھی ایک ملاقات کی جس کی ویڈیو جاری کی گئی ہے۔ اس اجلاس میں وزیرِ دفاع سرگئی شوئیگو بھی موجود تھے جن کے خلاف واگنر گروپ نے الزامات عائد کیے تھے اور ان کی نااہلی کو اپنی بغاوت کی ایک وجہ قرار دیا تھا۔
دوسری جانب واگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگزون نے بھی ٹیلی گرام پر 11 منٹ کا ایک آڈیو پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ واگنر گروپ نے روس کی فوج کا ہیلی کاپٹر اس لیے مار گرایا تھا کیوں کہ اس نے گروپ پر حملہ کیا تھا۔
'روسی بغاوت کا امریکہ یا اس کے اتحادیوں سے کوئی تعلق نہیں'
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہےکہ روس میں ہونے والی بغاوت اس کے اپنے نظام میں کی گئی ایک کوشش تھی۔ ان کے بقول وہ یہ واضح کرنا دینا چاہتے ہیں کہ مغربی اتحادی اس میں کسی بھی طرح ملوث نہیں تھے۔ اس بغاوت سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور نیٹو نے واگنر گروپ کی بغاوت میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
جو بائیڈن نے مزید کہا کہ حالیہ واقعات کا ، اور روس اور یوکرین پر ان کےاثرات کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا البتہ اس بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ابھی ممکن نہیں ہے کہ یہ معاملات کس طرف جائیں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ" ہم سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کا انحصار روسی عوام پر ہے کہ ان کی قیادت کس کے پاس ہو۔"
اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔