رسائی کے لنکس

کیا اہرام مصر کی تعمیر کا معمہ حل ہو گیا؟


سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اہرامِ مصر کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک ممکنہ طریقے کا سراغ لگا لیا ہے۔ اور یہ طریقہ ہے کہ گیلی ریت کا استعمال۔

اہرام مصر انسان کی بنائی ہوئی عظیم تعمیرات کا ایسا لازوال نمونہ ہیں جو اپنے دیکھنے والوں کو ان عظیم ہنرمندوں کی یاد دلاتا ہے جو شاید پراسرار قوتوں کے مالک نہیں تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے مصر کے ریگستان میں کاریگری کا ایسا نمونہ پیش کیا ہے جس کی تعمیر، ساخت اور ترتیب پر دنیا آج بھی حیران ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مصر میں اب تک کل 138 اہرام دریافت کئے گئے ہیں جنھیں اندازاً 2,630 قبل از مسیح پرانا بتایا جاتا ہے۔ البتہ قاہرہ سے باہر غزہ کے مقام موجود تین اہراموں خوفو، خافرہ اور مینکاور کا شمار دنیا کے قدیم عجائبات میں ہوتا ہے جن میں سب سے بڑا اہرام خوفو یا بادشاہ چیوپیس کا ہے.

تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ان قدیم مخروطی میناروں کو فراعنہ مصر نے اپنے مقبروں کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ اسی لیے ہر فرعون کہلانے والے سلاطین نے اپنی ممی کو محفوظ رکھنے کے لیے علحیدہ اہرام تعمیر کروائے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ اہرام مصریوں کے اس عقیدے کے نتیجے میں وجود میں آئے کہ اگر مرنے کے بعد مرنے والے کا جسم محفوظ رہے تو وہ دوسری زندگی میں زندہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ان اہرام کی دیواروں پرسلاطین مصر کے لیے آخرت کے سفر میں آسانی اور درجات کی بلندی کےنظریے سے تصاویر نقش کی گئی ہیں۔

ان اہراموں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی اینٹیں ناقابل یقین حد تک وزنی اور بڑی ہیں۔ اہرام مصر کی بنیاد اگرچہ مربع شکل میں ہے لیکن اس کے پہلو تکون ہیں یہ تکونیں اونچی پر پہنچ کر ایک نکتے پر مل جاتی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کے لیے لاکھوں مزدوروں سے کام لیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جن کے نتیجے میں یقین سے کہا جا سکے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کو مامور کیا گیا تھا۔

صدیوں سے ماہرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ مصری ہنرمندوں نے 2.5 ٹن تک وزنی پتھروں کو اہرام مصر کے تعمیراتی حصے تک پہنچانے کے لیے آخرکو نسا طریقہ استعمال کیا ہو گا؟

حال ہی میں 'ایمسٹرڈم یونیورسٹی' سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے اعلان کیا کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کے لیے استعمال کئے جانے والے ایک ممکنہ طریقے کا سراغ لگا لیا ہے۔ جس کا جواب بہت آسان ہے یعنی' گیلی ریت'۔

ماہرین نے کہا کہ اہرام مصر کی تعمیر کے لیے قدیم مصریوں کو ریگستان میں بھاری پتھر اور بڑے مجسموں کی نقل وحرکت کرنی پڑی ہوگی اسی لیے انھوں نے بھی اس طریقے کی نقل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح لکڑی کے چھکڑے پر وزنی اینٹیں رکھنے کے بعد اسے ریت پرکھینچا جا سکتا ہے۔

ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ مصری ہنر مند شاید چھکڑے کے آگے آگے صحرا کی ریت کو گیلا کرتے جاتے تھے جس سے گیلی ریت پروزنی چھکڑا کھینچنا آسان ہوتا تھا کیونکہ اس طرح چھکڑا گیلی زمین پربہت آسانی سے پھسلتا ہے۔

نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے محقیقین نے اپنی دلیل میں کہا ہے کہ وجہ بہت سادہ ہے۔ کیونکہ اس طرح گیلی ریت پر چھکڑا گھسیٹنے سے اس کے سامنے ریت کے ڈھیر جمع نہیں ہوتے جیسا کہ خشک ریت پر گھسٹنے کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں۔

اس طریقہ کار کی وضاحت کے لیے طبیعات کے ماہرین نے ایک لیبارٹری ورژن مال برداری کے استعمال کا چھکڑا تیار کیا جسے مخصوص حد تک گیلی ریت پر وزن کھنچنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

محقیقین نے اس تجربے کے دوران ریت میں پانی کی صحیح مقدار اور کھینچنے کی مطلوبہ طاقت دونوں کا تعین کیا۔

زمین کی سختی جانچنے کے لیے انھوں نے رو پیما (مائع بہاؤ ناپنے کا آلہ) استعمال کیا جس سے معلوم ہوا کہ گیلی ریت پر چھکڑا کھنچنے کے لیے کتنی طاقت کی ضرورت تھی۔

سائنسی جریدے 'فزیکل ریویو لیٹرز' میں شائع ہونے والی تحقیق کے تجربے سے ثابت ہوا کہ ریت میں نمی کی صحیح مقدار کھینچنے کی مطلوبہ طاقت کو آدھا کر دیتی ہے۔

ٹیم نے کہا ہے کہ ریت میں پانی کی صحیح مقدار میں موجودگی سے گیلے صحرا کی زمین خشک ریت کے مقابلے میں دوگنی سخت ہو جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ مصری غلام اس طریقہ کار سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان مقبروں سے ملنے والی قدیم تصاویر میں بھی مزدوروں کی جانب سے پتھروں اور مجسموں کو کھینچنے کے دوران چھکڑے کے آگے کھڑا شخص ریت گیلی کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
XS
SM
MD
LG