رسائی کے لنکس

نواز شریف اور قطر کا بحران


فائل
فائل

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، لیبیا اور یمن کی طرف سے اچانک قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کے اعلان کے بعد پاکستان کیلئے بھی ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ نہ صرف پاکستان کے دونوں فریقین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، قطر کے ساتھ گزشتہ برس طے ہونے والے 16 ارب ڈالر مالیت کے LNG گیس معاہدے کے حوالے سے ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے والے ممالک نے الزام لگایا ہے کہ قطر ایران کے ساتھ ملکر انتہاپسند تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ قطر نے اس الزام کی صحت سے انکار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اگر اُس کے ہمسایہ ممالک کسی بد گمانی کا شکار ہو گئے ہیں تو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے قطر کے امیر شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح اس بحران کے حل کی خاطر سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے ملاقات کیلئے منگل کے روز سعودی عرب روانہ ہو گئے ہیں۔ قطر کا کہنا ہے کہ صرف چند ہی روز قبل گلف کواپریٹو کونسل یعنی GCC کا اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس کے دوران کسی بھی عرب ملک کی طرف سے اس بارے میں کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔

مذکورہ چھ ممالک نے نہ صرف سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں بلکہ قطر کے ساتھ تمامتر زمینی اور فضائی رابطے بھی توڑ لئے ہیں جس سے 550 پاکستانیوں سمیت بہت سے مسافر قطر اور دوہا ہوائی اڈوں پر پھنس کر رہ گئے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے اپنے بینکوں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ اُن کے پاس موجود تمام تر قطری دینار فوراً فروخت کر دئے جائیں اور مزید نہ خریدے جائیں۔

سعودی عرب اور دیگر ممالک نے الزام لگایا ہے کہ قطر القائدہ، داعش اور اخوان المسلمین کی حمایت کرتے ہوئے دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اُنہوں نے سعودی عرب اور بحرین کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایران نواز عسکریت پسندوں کی حمایت کا بھی الزام لگایا ہے۔ اُدھر گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والے متعدد مضامین میں بھی قطر پر دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

لندن میں مقیم مشرق وسطیٰ اور خلیجی امور کے ماہر منظر وسیم نے وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ اگر پاکستان کیلئے سعودی عرب اور قطر میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کی ضرورت ہوئی تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خاطر پاکستان قطر کو قربان کر دے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی تارکین وطن ہر سال چھ ارب ڈالر کی رقوم پاکستان بھیجتے ہیں جو پاکستان کیلئے زیادہ اہم ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پاکستان کو دونوں جانب سے نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ تاہم نواز شریف کو اُن کے ذاتی مراسم کی وجہ سے خاصی حزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

منظر وسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بجائے ترکی زیادہ اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ اخوان المسلمین ، فلسطین ، ایران اور مسلم اُمہ کے حوالے سے ترکی اور قطر کے نظریات یکساں ہیں۔ یوں یہ دونوں ممالک فطری اتحادی ہیں۔

امریکہ کے حوالے سے منظر وسیم کا کہنا تھا کہ قطر میں 10,000 امریکی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے امریکہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہے گا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سعودی سربراہی میں قطر سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کے اقدام میں شامل نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کے گہرے ذاتی مراسم قائم ہیں اور پاناما کیس کے سلسلے میں بھی قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے نواز شریف اور اُن کے خاندان کی مدد کرتے ہوئے رقوم کی ترسیل کے سلسلے میں ایک خط فراہم کیا تھا۔ پچھلے دنوں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم JIT سے درخواست کی تھی کہ قطری شہزادے کو ویڈیو لنک کے ذریعے شہادت دینے کی اجازت دی جائے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق قطری شہزادے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُنہیں افسوس ہے کہ ذاتی مصروفیات کی بنا پر وہ اسلام آباد آ کر شہادت دینے سے قاصر ہیں۔

دوسری جانب جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کو پابند سلاسل کیا تھا تو سعودی عرب نے اُن کی جان بچائی تھی۔ لہذا پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے یہ بہت مشکل صورت حال ہے کیونکہ اگر وہ قطر کے حمایت کرتا ہے تو سعودی حکمرانوں کے خفا ہونے کا خدشہ ہے اور اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے وزیر اعظم کیلئے کوئی واضح پالیسی اختیار کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو سعودی سربراہی میں بننے والے 39 اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی اجازت دی تھی۔ ایران نے اس اقدام پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اتحاد ایک اسلامی اتحاد کے بجائے سنی اتحاد دکھائی دیتا ہے جو ایران کی مخالفت میں تشکیل دیا گیا ہے۔

پاکستان کو اس لئے بھی ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ پہلے ہی سے بھارت اور افغانستان کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ روابط بھی بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے حلقے مربوط خارجہ پالیسی کے فقدان کے حوالے سے نواز شریف حکومت پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ لہذا یقینی طور پر قطر اور سعودی عرب کا یہ بحران نواز شریف کے لئے ذاتی اور حکومتی دونوں سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

XS
SM
MD
LG