کراچی کے علاقے بفرزون میں کوئٹہ سے آبسنے والے علی خان کو سب سے زیادہ پیار کوئٹہ سے ہے۔ اور ہو بھی کیوں نا!! اس نے اسی شہر میں آنکھ کھولی تھی اور یہیں پلا بڑھا تھا مگر اس بار وہاں نسلی اور فرقہ وارانہ نفرتوں اور آئے دن کے فسادات نے وہ رنگ پکڑا کہ اس کے کئی رشتے دار بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ اور جب بات اس کی دہلیز تک پہنچنے لگی تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ گھروالوں کو لیکر کراچی آبسے۔ اس نے راتوں رات اپنے آبائی مکان کا سودا کیا اور پھر سے نئی زندگی شروع کرنے کا خواب لیکر قائد کے شہر آگیا۔
علی خان کے تئیں شہرچھوڑنے کافیصلہ بہت مشکل تھا لیکن اس کے پاس جان بچانے کا یہی واحد راستہ یہی تھا ۔ اس کا کہنا ہے :" میں ہی نہیں ، ہزاروں خاندان ملک کے دوسرے شہروں کا رخ کرچکے ہیں۔ مجھے کوئٹہ سے دلی لگاوٴ ہے ، وہاں ہمارے بزرگوں کی ہڈیاں ہیں لیکن ہمیں زور و زبردستی وہاں سے نکلنا پڑا۔ سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جنہیں بعد میں طالبان نے بڑھاوا دیا ۔ اب وہاں خوف کا راج ہے، ہر گھڑی ایک انجانہ سا ڈر دل کو جکڑےرکھتا ہے ۔ علی خان کا ایک قریبی رشتے دارجو سینئر پیتھالوجسٹ تھا 2009ء میں ہوئے ایک حملے میں مارا گیا۔ ایک اور رشتے دار جو پروفیسر تھا اس پر 2005ء اور 2010ء میں دو مرتبہ حملے ہوئے۔ علی خان کا کہنا ہے کہ ان دونوں افراد کو کوئی قصور نہیں تھا ، یہ لوگ ڈاکٹر اور پروفیسر جیسے پرامن پیشے سے وابستہ تھے کوئی جنگجو نہیں کہ جنہیں یوں بے دردی سے مار دیا جاتا۔ لیکن افسوس ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ انہیں بغیر کئے کی سزا ملی۔
بلوچستان کئی دہائیوں سے قوم پرست ،عسکریت پسندی اور نسلی و فرقہ وارانہ فسادات میں گھرا ہوا ہے ۔ بلوچ قوم پرست گروہ علاقے میں خود مختاری دیئے جانے کے آرزو مند ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنارہے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اقلیتی گروہ بلوچوں کے خیالات اور نظریات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اسلام کو سمجھنے کے معاملے پر سنی اور شیعہ گروپوں میں آئے دن جھڑپیں اور فسادات ہوتے رہتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال فرقہ وارانہ فسادات میں 418 افراد ہلاک کردیئے گئے ۔ ان میں سے 211 افراد کو خودکش حملوں کا نشانہ بننا پڑا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں 200 سے زائد افراد کو مذہبی اختلافات کے سبب ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ پولیس اس قسم کے واقعات کو روکنے میں اب تک بری طرح ناکام رہی ہے۔
بلوچستان پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا پولیس اہلکاروں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔اسے نہ صرف علیحدگی پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے بلکہ عسکریت پسند بھی انہیں ہی نشانہ بناتے ہیں۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل وزیر خان پر اپریل 2010ء میں حملہ ہوا جس میں وہ مارے گئے ۔ایک اور حملے میں ایک کانسٹیبل کو بھی ہلاک کردیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک چھوٹے رینک کے افسران ہی عسکریت پسند وں کا زیادہ نشانہ بنے ہیں کیوں کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے اور بلوچ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجابی ان کے دشمن ہیں۔ ایسے میں فرقہ ورانہ فسادات یا اختلافات ختم ہونا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ پاکستان حکومت کے لئے مسلسل درد سر بناہوا ہے ۔ یہاں علیحدگی کی تحریکیں سر ابھار رہی ہیں اور قدرتی وسائل و معدنیات سے ہونے والی آمدنی پرکنٹرول کے لئے بلوچ اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔
اس سب کا برا اثر تعلیم پر پڑ رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 2010ء میں انگنت ٹیچرز نے جان گنواجانے کے ڈر سے صوبے سے اپنا ٹرانسفر کرالیا جبکہ2008ء سے اب تک کم از کم 200ٹیچرز اور پروفیسرز نے یا تو کوئٹہ سے ہی اپنا تبادلہ کسی محفوظ مقام پر کرالیا یا وہ جہاں سے آئے تھے انہی صوبوں کو لوٹا گئے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ پرتشدد واقعات اور فسادات میں اپریل 2009ء میں تین ممتاز بلوچ سیاست دانوں کے قتل اور بلوچ قبائلی رہنما نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد سے اچانک تیزی آگئی ہے جو اب تک برقرار ہے۔
علی خان کے مطابق صوبے میں دو قومیں رہتی ہیں ۔ ایک پٹھان اور دوسرے بلوچ جو اکثریت میں ہیں جبکہ تیسرا نمبرہزاروں کا ہے جو اقلیت میں ہیں۔ پٹھان اور بلوچ سنی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ہزارہ والے شیعہ مسلک سے ہیں۔ان دونوں کے درمیان مذہبی اختلافات ہی فسادات کا اصل سبب ہیں۔