گذشتہ موسمِ خزاں میں جب فلوریڈا کے ایک پادری ٹیری جونز نے پہلی بار قرآنِ کریم کے نسخے کو نذرِ آتش کرنے کی دھمکی دی تھی، تو عیسائی راہبوں کے ایک گروپ نے اُن سے ملاقات کرکے اُن سے ایسا نہ کرنے پر زور دیا تھا۔
جیوف ٹونی کلف اُس گروپ میں شامل تھے۔ وہ نیویارک میں قائم ’ورلڈ اِوینجلیکل الائنس‘ http://www.worldevangelicals.org کے بین الاقوامی ڈائریکٹر ہیں، جو دنیا بھر کے 60کروڑ اِوینجلیکل عیسائیوں کی نمائندگی کرتاہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے جونز کو بتایا کہ اگر آپ اپنے ارادےکو عملی جامہ پہنائیں اور پھر ہنگامہ آرائی ہوتی ہے، پادری ہلاک ہوتے ہیں، کلیساؤں کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے، اُس وقت آپ میرے پاس آئیں گے اور بیواہوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اِس بات کی وضاحت پیش کر رہے ہوں گے کہ آپ نے ایسا قدم کیوں اٹھایا؟
خیال کیا جاتا ہے کہ اِس بیان کے باعث جونزقائل ہوئے اور اُنھوں نے گذشتہ موسمِ خزاں میں ایسا نہیں کیا۔ تاہم، جب اِس سے قبل اِسی سال جونز نے صاف کہا کہ چاہےکچھ بھی ہو وہ ایسا کرکےہی رہیں گے، تو ایک مرتبہ پھر ٹونی کلف نے اُنھیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اِس بار ناکام رہے۔ جونز نے 20مارچ کو قرآن پاک کو نذرِ آتش کیا۔
اِس بات کےباوجود کہ امریکی صدر براک اوباما اور افغانستان میں اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے مذمتی بیانات جاری کیے، افغانستان میں برہم مظاہرین نے پُر تشدد احتجاج کیا جِس میں اقوام متحدہ کے دفتر کے احاطے پر حملے میں سات کارکنوں کی ہلاکت شامل ہے۔
ٹونی کلف کہتے ہیں کہ جونز کا چھوٹا گرجا گھر ورلڈ اِوینجلیکل الائنس کا رُکن تک نہیں ہے۔
جب کہ عیسائی لیڈر مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں، امریکہ کے کئی ایک مسلمان رہنماؤں نے پُر تشدد ردِ عمل کی مذمت کی ہے۔
ڈیزی خان ’امریکن سوسائٹی فور مسلم ایڈوانس منٹ‘http://www.asmasociety.orgکی اِگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ امام فیصل عبد الرؤف کی اہلیہ ہیں جِن کی طرف سے 11ستمبر2001کے دہشت گرد حملوں کے مقام کے قریب ایک مسجد تعمیر کرنے کی تجویز پر گذشتہ سال تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔
ڈیزی خان نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اُن کا مذہب اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم پبلک رلیجن رسرچ انسٹی ٹيوٹ http://www.publicreligion.org سے تعلق رکھنے والے رابرٹ جونز کہتے ہیں کہ زیادہ تر امریکی اسلام کے بارے میں اعتدال پر مبنی رائے کے حامل ہیں۔
فروری میں ہونے والے جائزے کے مطابق 62فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمان امریکی مذہبی برادری کا ایک اہم جُزو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی مقدس کتابوں کی حرمت کے پاسدار ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل مال پرملک بھر سے آئے ہوئےبہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ جو کچھ فلوریڈا کے پادری نے کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔
ورجینا سے تعلق رکھنے والی، مارلین پال کے بقول میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی بھی شخص کسی مقدس کتاب کو کسی بھی وجہ سے کیونکر نذرِ آتش کر سکتا ہے۔
تاہم، جیمز گبسن جن کا تعلق جورجیا سے ہے کہتے ہیں کہ کسی حد تک وہ اِس بیان سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم، یہ عجب سی بات ہے کہ وہ تو کافروں کو مارنے کا پرچار کرتے ہیں لیکن اگر ہم کچھ بھی کرتے ہیں تو ہمیں شیطان کہا جاتا ہے۔
جہاں تک فلوریڈا کے پادری ٹیری جونز کا تعلق ہے اُس کی ویب سائٹ پر لکھا ہواہے کہ اب وہ مشی گن ریاست میں ڈیئربارن کے مقام پر امریکہ کی ایک سب سے بڑی مسجد کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔