رسائی کے لنکس

ربانی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں افغان وفد کی اسلام آباد آمد


ربانی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں افغان وفد کی اسلام آباد آمد
ربانی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں افغان وفد کی اسلام آباد آمد

افغانستان کے سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں اعلیٰ سطحی افغان وفد منگل کی شام اسلام آباد پہنچا ہے جس کی سربراہی نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل حسام الدین کر رہے ہیں اور اس میں وزارت دفاع کے علاوہ وزارت داخلہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

سفارتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وفد کے ارکان پاکستان میں دو روز قیام کریں اور پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے عمل میں سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا۔

وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے افغان وفد کی آمد سے قبل اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہیں کہ پروفیسر ربانی کا قتل قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے بڑا نقصان ہے اس لیے اس کی مشترکہ تحقیقات کر کے اس میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

’’یہ ہی فیصلہ ہوا تھا کہ اس کی تہ تک پہنچنا چاہیئے اور ہمیں پتہ چلنا چاہیئے کہ وہ کون سے دہشت گرد ہیں یا وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے پروفیسر ربانی کو شہید کر کے امن کا جو عمل چل رہا تھا اس کو ختم کرنے کی کوشش کی۔‘‘

مقتول افغان لیڈر پروفیسر برہان الدین ربانی کو صدر حامد کرزئی نے طالبان باغیوں کے ساتھ امن و مفاہمت کی بات چیت کے لیے قائم سرکاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا لیکن 20 ستمبر کو ایک خودکش بمبار نے عسکریت پسندوں کے پیغام رساں کے روپ میں اُن کے گھر میں داخل ہو کر اُن کو ہلاک کر دیا تھا۔

پروفیسر ربانی کی ہلاکت کے بعد جہاں مفاہمتی عمل کو شدید دھچکا لگا وہیں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی بھی بڑھ گئی کیوں کہ افغان حکام کا الزام ہے کہ اس قاتلانہ حملے کا منصوبہ پاکستانی سرزمین پر تیار کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکام اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں لیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پروفیسر ربانی کے قتل کی تحیقیقات میں افغانستان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

XS
SM
MD
LG