سندھ کےدوسرے بڑے شہر حیدرآباد میںگزشتہ روز اور اتوار کی شام ہونے والی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہوئی ہے۔پانی اب بھی کھڑا ہے اور شہر کی گلیاں اور محلے زیر آب ہیں۔ چوبیس گھنٹے سے زیادہ کھڑے ہونے والی پانی نے کیچڑ کا روپ لے لیا ہے جبکہ شہر کی فضاؤں میں تعفن پھیل گیا ہے۔
دو روز میں ہونے والی بارش اس قدر شدید تھی کہ پہلے بجلی کی فیڈر ٹرپ ہوئے ،شہر اندھیرے میں ڈوب گیا جبکہ پانی سڑکوں کو اپنے ساتھ بہہ کر لے گیا ۔حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشن اور ریلوے ٹریک بھی زیر آب آچکے ہیںجس سے ٹرینوں کی آمدورفت بھی بری طرح متاثر ہوئی ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ شہر کے بیشتر علاقوں میں آباد گھر اور پورے پورے محلے بھی زیرآب آگئے یہاں تک کہ شہریوں کو درمیانی شب جاگ کرگزارنا پڑی۔ ان کا تمام سامان و متاع ڈوب گیا ۔ بعض گھروں اور علاقوں میں پانی چار چار فٹ تک بھر گیا۔ لوگ اتوار کی شام تک اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی آب میں مصروف عمل رہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق صرف ہفتے کے روز ہی حیدرآباد میں 115 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔ بارش کی وجہ شہر کا مواصلاتی نظام بھی بری طرح درہم برہم ہوگیا، انگنت ٹیلی فونز ڈیڈ ہوگئے۔بجلی نہ ہونے کے سبب موبائل فونز بھی چارج نہیں کئے جاسکے۔
وائس آف امریکہ کو اپنے ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اگرچہ اتوار کی شام تک بارش کے باعث پھیلنے والی تباہی کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہوچکا ہے لیکن بیشتر علاقوں سے پانی نکالا نہیں جاسکا جس کے سبب کھانے پینے کی اشیاء تک کم پڑگئیں۔ متعدد شہریوں کے لئے اتوار کی شام تک کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا تھا۔
شہریوں کی بڑی تعداد نالاں ہے جس نے وی او اے سمیت تمام میڈیا نمائندوں کے ذریعے انتظامیہ تک اپنے مسائل بیان کرنے کے لئے رابطہ کیا ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ نہ تو ان کے پاس یہاں سے نکلنے کا کوئی مناسب انتظام ہے اور نہ ہی کھانے پینے کی اشیاء ۔ بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔
ملک کے نجی ٹی وی چینلز سے نشر ہونے والی خبریں میں بتایا جارہا ہے کہ کچھ علاقوں میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کشتیاں بنائیں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ۔
بارش سے ریلوے کالونی ، لطیف آبادنمبر دو، قاسم آباد، مہرعلی سوسائٹی، حالی روڈ، ریلوے کوارٹرز اور دیگر نشیبی علاقوں پانی کئی کئی فٹ تک کھڑا ہوگیا ۔
سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے حیدرآباد کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ نکاسی آب کے لئے مشینری استعمال کی جارہی ہے جلد ہی صورتحال معمول پر آجائے گی۔ صوبائی حکومت اور اس کے محکمے الرٹ ہیں اور اپنی ذمے داریاں پوری کررہے ہیں تاکہ لوگوں کو جلد از جلد راحت مل سکے۔
حیدرآباد کے بعد دیگر شہروں کی بات کریں تو بلوچستان کے پہاڑی ندی نالوں سے آنے والے ریلے سےضلع دادو کی گاج ندی میں بھی اتوار کو طغیانی ریکارڈ کی گئی جبکہ جوہی واہی پاندی روڈتیز ریلے میں بہہ گیا جس سے ڈرگھ بالا، تیگو جمالی اور گورکھ ہل اسٹیشن سمیت کئی دیہات کا جوہی سے رابطہ منقطع ہوگیا۔
گاج ندی میں پانی کی سطح 18 فٹ تک بلند ہوگئی ہے جبکہ اس کی انتہائی سطح 27 فٹ ہے۔ادھر منچھر جھیل میں بھی پانی کی سطح ملسل بڑھ رہی ہے ۔
دوسری جانب کراچی کو پانی سپلائی کرنے والے ڈیم حب کی سطح بھی بڑھ کر293 فٹ ہوگئی ہے۔ڈیم میں 60 گھنٹے کے دوران 14 فٹ سے زائد پانی آچکا ہے۔