ایودھیا میں متنازعہ مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بارے میں قانون سازی کے لیے حکومت پر دباو ڈالنے کی خاطر وشو ہندو پریشد کی ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کے روز دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا اور حکومت سے قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سے قبل 25 نومبر کو ایودھیا سمیت متعدد مقامات پر ریلیاں نکالی گئی تھیں۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے ایک سینئر رہنما سریش بھیا جی جوشی نے برسراقتدار افراد کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ انھوں نے رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ انھیں عوام کی باتیں سننی چاہئیں اور ایودھیا میں مندر تعمیر کا مطالبہ پورا کرنا چاہیے۔
ان کے بقول اس سلسلے میں قانون سازی ہی واحد متبادل ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کسی فرقے کے خلاف نہیں ہیں صرف اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دیگر مقررین نے بھی قانون سازی کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر دہلی پولیس نے سخت حفاظتی انتظامات کیے اور اونچی عمارتوں پر اسنائپرس بھی تعینات کیے گئے۔ یہ ریلی پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے انعقاد سے دو روز قبل ہوئی۔
دریں اثنا وشو ہندو پریشد کے انٹرنیشنل کارگزار صدر آلوک کمار نے ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک طویل عرصے سے عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ چونکہ عدالتی عمل بہت طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے اس لیے ہم قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جہاں تک قانون سازی کا معاملہ ہے تو اس بارے میں ماہرین قانون کی دو رائے ہیں۔ ایک رائے کے مطابق حکومت آرڈیننس لا سکتی ہے۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر حکومت نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
قانون دان اور ایودھیا تنازعے پر ایک کتاب کے مصنف وِراگ گپتا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے 1993 میں متنازعہ اراضی کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اس لیے وہ اس کی مالک ہو گئی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اس معاملے میں فریق بنے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت مندر یا مسجد نہیں بنوا سکتی کیونکہ ایسا کرنا آئین کے خلاف ہوگا۔ لیکن حکومت سپریم کورٹ میں جا کر مندر تعمیر کے لیے راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو عدالت سے ٹکراو کا راستہ اختیار کرنے سے بچنا چاہیے۔
متنازعہ اراضی کے حق ملکیت کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے جس پر جنوری کے اوائل میں سماعت شروع ہوگی۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ عدالت جو بھی فیصلہ سنائے گی وہ اس کو تسلیم کریں گے۔ جبکہ ہندو فریقوں کا کہنا ہے کہ اگر فیصلہ مندر کے خلاف آیا تو وہ اسے تسلیم نہیں کریں گے۔