رسائی کے لنکس

جلیبی اوررمضان میں چولی دامن کا ساتھ


جلیبی اوررمضان میں چولی دامن کا ساتھ
جلیبی اوررمضان میں چولی دامن کا ساتھ

کچھ لوگوں کے نزدیک جلیبی اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ وہ کہتے ہیں سحری میں دودھ میں بھیگی ہوئی جلیبی جب تک نہ کھالیں، سحری کا مزہ ہی نہیں آتا۔ یا جس افطار میں جلیبی نہ ہو تووہ افطار ہی کیا۔ لہذا جتنی جلیبی وہ رمضان کے مہینے میں کھاتے ہیں اتنی جلیبی پورا سال نہیں کھاتے۔

پاکستان میں جلیبی کے حوالے سے کئی دلچسپ باتیں بھی اکثرسنی اور کہی جاتی ہیں مثلاً کسی بھی طنز کرنا ہوتو کہا جاتا ہے ' ہاں ۔۔۔ہاں۔۔تم تو بہت سیدھے ہو۔۔جلیبی کی طرح!!۔۔۔اکثر یہ بھی کہا جاتا کہ جلیبی دیکھ کر تو انگریز سرکار بھی پریشان تھی ، سوچتی تھی" اس ٹیوب میں شیرا کہاں سے بھرا جاتا ہی"

پاکستان میں۔۔۔ اور ہندوستان کے بہت سے شہروں میں بھی ۔۔۔جلیبی قریب قریب ہر امیر اور غریب آدمی کے افطار اور سحر کی زینت ہوتی ہے۔ غالباً پاکستان کے ہر صوبے اور ہر دیہات میں آپ کو ملے گی۔ جہاں میٹھائی وہاں جلیبی!!کچھ سیانوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ جلیبی ہماری "قومی میٹھائی" ہے۔پھر اس کی تاریخ کھوجئے تو اس کا سلسلہ مغلیہ دور سے جاملتا ہے ۔۔اور زراپیچھے جائیے تو یہی سلسلہ سرحد وں کے پار تک چلتا چلا جاتا ہے۔

ایران میں' جلیبی کی ابتدائی شکل والی میٹھائی 'کو " ذولوبیہ "کہا جاتاتھا ۔ اس خاص خاص مواقع پر بنایا اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا تھاالبتہ محمد بن حسن البغدادی کی کک بک میں 13ویں صدی میں پہلی مرتبہ اس کا ذکر تحریری شکل میں نظر آتا ہے۔ محمد بن حسن الغدادی کو مختصراً اور عموماً "البغدادی " کہا جا تا تھا ۔ یہ عربی کی کک بک کے مرتب تھے جنہوں نے عباسیوں کے دورحکومت میں اس کتاب کومرتب کیا تھا ۔ اس کک بک کا نام "کتاب الطبیق" یعنی مختلف ڈشوں کی کتاب تھا۔

جلیبی نے مغلوں کے دور حکومت میں ایران سے ہندوستان تک کا سفر طے کیا ۔ یہ جلیبی ہی تھی جو ایرانی تاجروں، وہاں کی ثقافت اور سیاسی روایات کے ساتھ ساتھ ہندوستان چلی آئی۔

ہندوستان کے عظیم ترین شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے دور میں جلیبی نے دہلی سے پورے ملک کا سفر کیا یہاں تک کہ پاکستان بھی چلی آئی۔ ایک جہاندیدہ شخص کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جلیبی کے لئے چار ہی شہر مشہور تھے۔ دہلی، آگرہ، بنگال اور بدایوں۔

صرف کراچی کی بات کریں تو شہر کی سب سے اچھی کے لئے برنس روڈ سب سے مشہور ہے۔ لیکن جلیبی اپنی ہر دل عزیزی کی وجہ سے شہر کے ہر کونے ہر نکڑ پر مل جاتی ہے۔ رمضان میں اس کی کھپت زیادہ ہوتی ہے ورنہ یہ سارے سال کھائی اورکھلائی جاتی ہے۔ اکثر گھرانوں میں شام کی چائے کے وقت پہنچنے والوں کی تواضع سموسوں اور جلیبی سے ہی کی جاتی ہے۔

جلیبی ہر مذہب اور ہر کلچر میں پروان چڑھی ہے ۔ لاہور کا پنجابی ہو یا لندن میں رہنے والا سکھ پنجابی خوشی کے ہر موقع پر جلیبی کھانا نہیں بھولتا۔ سکھوں کا تو عالم یہ ہے کہ ان کے بچوں کی شادی جلیبی کے بغیر ہوہی نہیں سکتی۔ اور تو اور۔۔جن لوگوں کو ذیابیطیس کا مرض لاحق ہو اب ان کے لئے بھی 'شوگرفری جلیبی' بننے لگی ہیں۔شوگرفری جلیبی ہوگی کیسی ، بنے گی کیسے ، ملے گی کہاں ۔۔یہ جلیبی کے دیوانے خود ہی ڈھونڈ نکالیں گے۔

XS
SM
MD
LG