پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالتی احکامات پر تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور گزشتہ روز وزیرِ اعظم سے ہونے والی ملاقات کے بعد معاملات جلدی حل ہوں گے۔
منگل کی شام وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم کی درخواست پر ہونے والی اس ملاقات میں شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بدھ کو سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں اسی ملاقات کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ اب معاملات جلد حل ہوں گے۔
گو کہ اس سے قبل بھی وزرائے اعظم کی چیف جسٹس صاحبان سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس اچانک ملاقات کو موجودہ صورتِ حال میں غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر نواز شریف اپنے خلاف عدالتی فیصلے پر کھلے عام تنقید کرتے ہوئے سخت بیانات دیتے آ رہے ہیں جب کہ وفاقی کابینہ کے دو وزیروں کو بھی توہینِ عدالت کے معاملے پر پیشیوں کا سامنا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ پہلے ہی اپنے ردِ عمل میں اس ملاقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس سے موجودہ صورتِ حال میں مزید قیاس آرائیوں کو ہوا ملے گی۔
سینئر قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور حکومت میں ایک دراڑ پڑ چکی ہوئی ہے اور تنقید کی حدیں بھی ان کے بقول بہت برے طریقے سے عبور کی گئی ہیں۔
"سابق وزیرِ اعظم جو ہیں وہ اسی جماعت سے ہیں۔ جو موجودہ وزیرِ اعظم ہیں وہ بھی ان ہی کے نامزد کردہ ہیں اور ان کے مقدمے چل رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ عوام یہ تاثر قائم کرے کہ شاید وزیراعظم صاحب (عدالت کو) منانے گئے ہوں۔"
لیکن حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس ملاقات پر ہونے والی چہ میگوئیوں کو مسترد کرتے ہوئے اسے ملک کے لیے اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں صحافیوں میں گفتگو میں کہا کہ جو لوگ اس ملاقات پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں انھیں شکر کرنا چاہیے کہ ریاست کے دو اداروں کے سربراہان کی ملاقات ہوئی ہے جو کہ جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے مفید ہے۔
"عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہ کی ملاقات ریاست کے لیے وسیع تر مفاد میں ہے اگر بات نہیں ہو گی تو آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔"
چیف جسٹس ثاقب نثار بظاہر عدلیہ پر ہونے والی تنقید کے جواب میں اپنی مختلف تقاریر میں یہ کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ کو قانون و آئین کے مطابق فیصلے کرنے ہیں نہ کہ کسی دباؤ میں آ کر۔
منگل کو ہونے والی ملاقات کے بعد جاری اعلامیے میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم کو عدلیہ کے آئینی کردار کو بلا خوف اور قانون کے مطابق ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
سابق وزیرِ اعظم نوازشریف اور حکمران جماعت کے دیگر رہنماؤں کو موقف رہا ہے کہ وہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن فیصلوں پر تنقید ان کا حق ہے۔