سن 2016 میں بھی مسلسل تیسرے سال دنیا کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں بھارت کے کئی علاقوں میں اتنی زیادہ گرمی پڑی جس کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے اور منجمد آرکٹک میں بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔ قطبی اور بلند پہاڑی سلسلوں میں صدیوں پرانے گلیشیئرز پگھلنے کی تیزی آرہی ہے جس نے برف کی پرتیں خطرناک حد تک کم ہونے اور طغیانیاں آنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے کئی ساحلی علاقوں اور جزائر کے ڈوبنے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
موسمیات اور آب و ہوا کی تبدیلیوں سے متعلق اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں زمین اور سمندروں کی سطح پر درجہ حرارت بیسویں صدی کے أوسط درجہ حرارت سے ایک اعشاریہ 69 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ تھا۔
سمندروں اور فضا کی نگرانی سے متعلق امریکی ادارے این او اے اے کے مطابق 20 صدی کا أوسط درجہ حرارت 57 درجہ فارن ہائیٹ تھا۔
زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں اور قدرتی موسمی عوامل ایل نینو کے اثرات ہیں جس سے بحرالکاہل کی سطح کے درجہ حرارت نے 2015 کا ریکارڈ توڑ دیا۔
دنیا میں درجہ حرارت کو ناپنے اور اس کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ 1880 کے عشرے میں شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے گذشتہ تین برسوں کے دوران ریکارڈ کیا جانے والا درجہ حررات ماضی کے مقابلے میں مسلسل بلند چلا آ رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2017 میں ایل نینو کے موسمی اثرات کے ختم ہونے کے بعد بھی درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان جاری رہے گا کیونکہ چین اور امریکہ میں بڑے پیمانے پر معدنی تیل جلائے جانے سے فضائی کرے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سن 2015 کے آخر میں پیرس میں آب و ہوا کی تبدیلیوں پر ہونے والی ایک کانفرنس میں دنیا کے 200 ملکوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد کرہ ارض کے درجہ حرارت کو گھٹا کر صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے دو درجے تک اوپر لانا تھا۔
لیکن اب امریکہ میں نئی حکومت آنے سے اس معاہدے کے لیے خطرات کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ آب و ہوا کی تبدیلی یقین نہیں رکھتی اور اسے فریب قرار دے کر، ماحولیات سے متعلق کئی اہم منصوبوں کی فندنگ روک چکی ہے۔
سمندروں کی سطح کے درجہ حرارت پر نظر رکھنے والے سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے 20 جنوری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کرہ ارض کا اوسطاً درجہ حرارت لگ بھگ وہی ہے جو ایک لاکھ 25000 ہزار سال پہلے اس وقت تھا جب زمین پر ایک گرم دور شروع ہونے سے تباہی آئی تھی۔
آب و ہوا کی تبدیلی پر کام کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سوا لاکھ سال پہلے گرم دور شروع ہونے کے بعد سمندر کی سطح آج کی سطح کے مقابلے میں 6 سے 9 فٹ تک بلند ہو گئی تھی اور بہت سے علاقے غرق ہو گئے تھے۔
دنیا کے أوسط درجہ حرارت کا تعین ایک مشکل کام ہےجس کے لیے تقریباً مختلف نوعیت کے 104 پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
امریکی ریاست اوریگان کے شہر کارویلس میں واقع سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دان جرمی ہوف مین کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار اور قدیم دور کے موسم کے نمونوں کے موازنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سوا لاکھ سال پہلے کرہ ارض کا أوسط درجہ حرارت 1995 اور 2014 کے عرصے کے دوران کے أوسط درجہ حرارت کے تقریباً برابر تھا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ عالمی تباہی کا یہ راستہ ہم نے ترقی کے نام پر اپنی مرضی سے خود چنا ہے۔