'ریمیمبرنس سنڈے' کے موقعے پر اتوار کے روز برطانیہ لیےجانوں کی قربانیاں دینے والے فوجیوں کی یاد میں تقریبات منعقد ہوئیں۔
مرکزی تقریب دارالحکومت لندن کے وہائٹ ہال کے 'سینوٹاف میموریل' پر ہوئی جہاں ملکہ برطانیہ، الزبیتھ نے جنگ عظیم اول اور دوئم کے بعد سے اب تک تنازعات کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی یاد میں 'جنگی یادگار' پر پھولوں کی چادر چڑھائی.
سالانہ تقریب میں تھریسا مئے پہلی بار بطور برطانوی وزیر اعظم شریک ہوئیں۔ انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
خصوصی سروس میں شہزادہ فلپ، شہزادہ چارلس، شہزادہ ولیم، شہزادہ ہیری، شہزادی کمیلا، شہزادی کیتھرین مڈلٹن اور شاہی خاندان کے دیگر ارکان سمیت سابق فوجی اہلکاروں اور حاضر سروس اہلکاروں نے شرکت کی۔
2014سے 2018 تک جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم عالمی سطح پر پھیل گئی تھی اور اس میں لاکھوں جانیں ضایع ہوئیں۔ عالمی تاریخ کے اس موڑ کی یاد برطانیہ اور دولت مشترکہ کے ممالک میں ایک ساتھ منائی جاتی ہے۔
اس دن مرنے والوں کی یاد میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور لوگ اپنے لباس پر 'پوپی کے پھول' کا بیج لگاتے ہیں یہ سرخ گل لالہ کا پھول اجتماعی موت کی علامت ہے۔یہ وہ واحد پھول ہےجو جنگ عظیم اول کے دوران بمباری سے تباہ ہونے والی مغربی یورپ کی تباہ اور بنجر زمین پر مسلسل کھلتا رہا۔
یورک شایر کاونٹی کے شہر شیفیلڈ میں اتوار کو بارکرز پول کی 'جنگی یادگار' پر ملک کے لیےجانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد کا قومی دن منایا گیا۔
خصوصی سروس میں جنگ عظیم اول کے ان 4,896 جوانوں کو خاص طور پر یاد کیا گیا جو شیفیلڈ سٹی بٹالین کا حصہ تھے ان میں شیفیلڈ نژاد میجر ولیم ایلن قابل ذکر ہیں جن کی عظیم قربانی کے صلے میں انھیں وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا۔
تقریب کی میزبانی شیفیلڈ کی لارڈ میئر ڈینئس فاکس نے کی انھوں نے کہا کہ یقیناً اس دن شیفیلڈ کے عوام کی بہادری کو یاد کیا جاتا ہے اس شہر کے دادا اور پر دادا نے 100 برس قبل خوفناک جنگ میں اپنی جانیں دیں تھیں اور اس سال انھیں پہلے سے زیادہ یاد کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس دن ہم ملک کی خدمت پر مامور مسلح افواج اور تنازعات میں نبردآزما ہمارے جوانوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ریمیمبرنس ڈے کو 11 نومبر 1918 سے منسوب کیا جاتا ہے جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمے ہوا اور کنگ جارج نے 1919 میں جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی یاد منانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ دن برصغیر کے ان 74 ہزار فوجیوں کی یاد کا بھی دن ہے جو پہلی جنگ عظیم کے محاذ پر سلطنت برطانیہ کے لیے لڑ رہے تھے اور انھوں نے سلطنت برطانیہ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دی تھی۔
برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران برصغیر (آج کے پاکستان) کے تین مسلمان فوجیوں کو ان کی شجاعت کے صلے میں برطانیہ کے سب سے بڑے فوجی اعزاز 'وکٹوریہ کراس' سے نوازا تھا۔
برطانوی عوام کی طرف سے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کانسی کی تختی پاکستان بھجوائی گئی ہے جس پر ان کے نام درج ہیں۔
جنگ عظیم اول میں وکٹوریہ کراس پانے والے پاکستانی فوجی خداداد خان:
یو کے ڈاٹ گوو کے مطابق وکٹوریہ کراس پانے والے خدادا خان ایک پٹھان خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ پہلی جنگ عظیم میں 129 بلوچ رجمنٹ میں شامل تھے۔ وہ ان 20 ہزار فوجیوں میں شامل تھے جنھیں تھکی ہوئی برطانوی افواج کی مدد کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس رجمنٹ نے بیلجیئم میں جرمنوں کی پیش قدمی روکی، درحقیقت یہ بلوچ رجمنٹ تعداد میں 5 جرمنوں کے مقابلے میں ایک تھی۔ خداداد خان کے عملے پر جرمن فوج قابض آگئی تھی اور وہ تنہا بچے تھے اور زخمی تھے۔ لیکن، انھوں نے مردہ ہونے کا ڈھونگ کیا اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رینگ رینگ کر پیچھے اپنی رجمنٹ سے جا ملے۔ ان کی اس بہادری نے اتحادیوں کو اتنا وقت فراہم کردیا کہ برطانوی کمک پہنچ کر جرمنوں کو اہم مقامات تک پہنچنے سے روک سکے۔
خداداد خان کا برائیٹن کے ایک اسپتال میں علاج کیا گیا اور بعدازاں بکنگھم پیلس میں کنگ جارج پنجم نے خود وکٹورہہ کراس ان کے سینے پر آویزاں کیا۔ وہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے تھے جہاں انھوں نے 1971 میں وفات پائی ان کی نسل کے کچھ افراد لیڈز میں آباد ہیں۔
جنگ عظیم اول مییں وکٹوریہ کراس پانے والے پاکستانی فوجی میر دست:
مسلمان فوجی میر دست خیبر پختوانخواہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔انھوں نے برٹش آرمی میں 1894 میں شمولیت اختیار کی۔ وہ مارچ 1915 میں فرانس پہنچے، وہ اس بھارتی دستے کا حصہ تھے جو زخمی یا مرنے والے فوجیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے گیا تھا۔
وہ لاہور ڈویژن کی 7 ویں بریگیڈ میں ایک جمعدار تھےجب انھیں یہ اعزاز دیا گیا ان کی ڈویژن فرانسیسیوں کے ساتھ مل کر جرمنوں کے خلاف کاروائی میں مصروف تھی کہ جرمنوں نے کلورین گیس فضا میں چھوڑ دی جس سے کئی فوجی بوکھلا کر پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن میر دست ان چند فوجیوں میں شامل تھے جو وہیں ڈٹے رہے۔ اپریل 1915 میں انھوں نے وائیپرس کے مقام پر نمایاں شجاعت کا مظاہرہ کیا حملے کے وقت وہ اپنی پلاٹون کی قیادت کررہے تھے اور بعد میں انھوں نے آٹھ برطانوی فوجیوں اور بھارتی افسران کو اپنی حفاظت میں لے لیا جبکہ وہ خود بھی بھاری فائر کی زد میں تھے۔
میر دست زخمی تھے ان کا علاج برائٹن پویلین میں ہوا جارج پنجم نے انھیں خود وکٹوریہ کراس سے نوازا تھا ان کا انتقال 1945 میں پشاور میں ہوا۔
جنگ عظیم اول میں وکٹوریہ کراس پانے والے پاکستانی فوجی شاہماد خان:
پاکساتی فوجی شاہماد خان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ وہ پہلی جنگ عظیم کے دوران نائیک کی حیثیت سے برٹش آرمی پنجاب رجمنٹ میں شامل تھے۔ انھوں نے 13 اپریل 1916 کو شجاعت کا عظیم مظاہرہ کیا جس پر انھیں وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا ہے۔
وہ جس مشین گن کے انچارج تھے وہ ایک کھلی جگہ پر نصب تھی اس کا فاصلہ خندق میں موجود دشمن سے 150 گز کا تھا۔ شاہماد نے تین حملے ناکام بنا دئیے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے بعد اکیلے مشین گن چلاتے رہے۔ انھوں نے مسلسل تین گھنٹے اس خلا میں بھاری فائرنگ کی جب تک مزید کمک نہیں مل گئی اور جب ان کی مشین گن کو دشمن نے تباہ کردیا تو وہ رائفلوں سے فائر کرتے رہےجب تک انھیں رک جانے کا حکم نہیں ملا اور اپنے ایک شدید زخمی ساتھی کو اٹھا کر واپس آئے وہ دوبار واپس گئے اور بچا کھچا ہتھیار اور سازوسامان وہاں سے ہٹا دئیے۔
اگر شاہماد خان اتنی بہادری کا مظاہرہ نہ کرتے تو دشمن یقیناً برطانوی افواج کی صفوں میں داخل ہوجاتا۔ بعد میں وہ صوبیدار کے عہدے تک پہنچے۔ شمشاد خان کا انتقال 1947 میں اپنے آبائی گاؤں، تخت پاکستان میں ہوا۔