پاکستان میں جمعہ کی شام سے اور ہفتے کو رات گئے تک شاید ہی ملی نغموں کی کوئی ایسی محفل ہوگی جہاں 'سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔۔۔' اور 'جیوے، جیوے، جیوے پاکستان۔۔'جیسے نغمے نہ سنے یا پڑھے گئے ہوں۔ ان دونوں نغموں کی گونج پاکستان کے ہر قومی دن کے موقع پر سنائی دیتی ہے۔
اتفاق یہ ہے کہ 23 مارچ یعنی ہفتے کو 'یوم پاکستان' پر جب پاکستان بھر کے لوگ ان نغموں کو گنگنا رہے تھے، انہیں لازوال بنانے والی شہناز بیگم کی خوب صورت آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔
شہناز بیگم کی عمر 67 سال تھی اور وہ سابق مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش میں مقیم تھیں اور ڈھاکہ میں ہی ان کا انتقال ہوا۔
انہیں دل کا دورہ پڑا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ انہوں نے شوہر، ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ان کے بچوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ بیٹا کینیڈا اور بیٹی برطانیہ میں رہتی ہے۔
شہناز بیگم 1952 میں ڈھاکہ میں ہی پیدا ہوئی تھیں۔ یہیں سے انہیں گانے کا شوق ہوا اور جس عمر میں وہ اسکول جاتی تھیں اسی دور سے انہوں نے فن گائیکی پر توجہ دینا شروع کر دی تھی۔
کم عمری کے باوجود اپنی خوب صورت آواز کی بدولت وہ بنگلہ فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گئیں، پھر پاکستانی فلموں کے لئے بھی بہت سے گانے گائے۔ ملی نغموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا اور ایسا جگایا کہ متعدد ملی نغموں کو امر کر دیا۔
اسی دوران سقوط ڈھاکہ ہوا تو شہناز بیگم ڈھاکہ تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں۔ لیکن انہوں نے دونوں ملکوں میں اپنی یکساں پہچان بنائی۔ پاکستان کی نئی نسل ہو سکتا ہے ان کی شکل اور کسی حد تک نام سے بھی زیادہ واقف نہ ہو لیکن ان کے ملی نغموں کو عشروں سے خوب پہچانتی اور گنگناتی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے شہناز بیگم کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔