اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہ گذشتہ سال جمہوری ملکوں میں عوامی اور قوم پرست حلقوں کے حوالے سے کافی ہل چل دیکھی گئی، ’فریڈم ہاؤس‘ نے اعلان کیا ہے کہ 2016ء میں لگاتار گیارہویں بار عالمی آزادی تنزل کی شکار رہی۔
’فریڈم ہاؤس رپورٹ‘ میں کُل 195 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے، جن میں سے نصف سے بھی کم ملکوں کو آزاد قرار دیا گیا ہے۔
انچاس ملکوں کو ’’غیر آزاد‘‘ قرار دیا گیا ہے، جن میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے شام، اریٹریا، شمالی کوریا، ازبکستان، جنوبی سوڈان، ترکمانستان، صومالیہ، سوڈان، اکوئیٹوریل گِنی، وسط افریقی جمہوریہ اور سعودی عرب کا ریکارڈ ’’بدترین‘‘ بتایا گیا ہے۔
منگل کو جاری ہونے والی ’عالمی آزادی کی 2017ء کی رپورٹ‘ میں، امریکہ ’’آزاد‘‘ ملکوں کے درجے میں شامل ہے۔ لیکن، بتایا گیا ہے کہ وہ بھی ’’سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں، دونوں‘‘ لحاظ سے رکاوٹ زدہ بتایا گیا ہے۔
آزاد ملکوں کی فہرست میں شامل دیگر ملک ہیں: برازیل، زیچ ریپبلک، ڈینمارک، فرانس، ہنگری، پولینڈ، سربیا، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، اسپین اور تیونسیا۔ لیکن، اُن کے لیے بتایا گیا ہے کہ اُنھیں ’’جمہوریت مخالف‘‘ تبدیلی کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں، خاص طور پر وسطی یورپ کے ملکوں کے لیے کہا گیا ہے کہ اُنھوں نے 1980 سے 1990ء کی دہائی میں جمہوریت کی جانب ’’قابل قدر‘‘ پیش رفت دکھائی، جب کہ وہاں ’’منتخب عوامی رہنما اِس کا رُخ کافی حد تک پلٹ دیں گے‘‘۔
حالانکہ ترکی کو ’’کسی حد تک آزاد‘‘ قرار دیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ وہاں گذشتہ سال میں بہت زیادہ تنزلی آئی، جو 2016ء میں متعدد دہشت گرد حملوں کا شکار رہا، جب کہ موسم گرما میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور لوگوں کو زیرِ حراست رکھا گیا۔