افغانستان میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ ماہ وادی پنجشیر میں پکڑے گئے 27 قیدیوں کو طالبان نے قتل کر دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ یہ افراد عسکری کارروائی کے دوران مارے گئے تھے۔
برطانیہ کی این جی او "سینٹر فار انفارمیشن رزلئینس" کی جانب سے چلائے جانے والے ’افغان وٹنس‘ ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایک ویڈیو کی تصدیق کی گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پانچ قیدیوں پر، جن کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھے گئے تھے اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی، طالبان جنگجو بیس سیکنڈ تک گولیاں برسا رہے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے خوشی کے نعرے لگانے شروع کر دئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان اپنے مخالفین کے خلاف سخت اور ظالمانہ حربے استعمال کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگست 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد سے طالبان نے ملک میں سخت نظام حکومت رائج کر رکھا ہے جب کہ وہ دنیا سے اپنے اقتدار کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
افغان وٹنس کی ٹیم کے قائد ڈیوڈ اوسبورن نے بتایا کہ اس رپورٹ میں واضح مثالیں دی گئی ہیں کہ طالبان اپنے مخالفین کے قتل عام میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے سوشل میڈیا پر وائرل ایسی درجنوں ویڈیوز اور تصاویر کا تجزیہ کیا ہے، جس کے بعد وہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ طالبان کے ایک گروہ نے پنجشیر کے ضلع دارا میں دس افراد کو قتل کیا ہے، جن میں سے پانچ اس ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو کے تجزیے سے 17 دیگر ماورائے عدالت قتلوں کا انکشاف ہوا ہے۔ تنظیم کے مطابق ان ویڈیوز کی باریک بینی سے جانچ کے بعد علاقے کی تصدیق اور طالبان جنگجوؤں کی دوسری ویڈیوز کی مدد سے ان ویڈیوز میں موجود جنگجوؤں کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
اوسبورن کا کہنا ہے کہ ان ویڈیوز کی جانچ کے بعد یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ پنجشیر میں ستمبر کے وسط میں ان افراد کو مختصر سماعت کے بعد منظم طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ یہ افراد جب قتل کئے گئے تو رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور قید تھے، یہ طالبان کے لیے فوری خطرہ ہرگز نہ تھے۔
طالبان کی وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کا کہنا تھا کہ ان کا ایک وفد سوشل میڈیا پر ریلیز ہونے والی ویڈیوز کی تحقیقات کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس جاری تفتیش کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں دے سکتے۔
اے پی کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد فوری طور پر تبصرے کے لیے موجود نہ تھے۔
گزشتہ ماہ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان کے جنگجوؤں نے پنجشیر میں 40 مزاحمت کاروں کو ہلاک کیا ہے اور ایک سو سے زائد افراد قید کئے گئے ہیں۔ انہوں نے ان 40 افراد کی ہلاکت سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں دی تھیں۔
کابل کے شمال میں واقع وادی پنجشیر افغان حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں واحد جگہ ہے جہاں طالبان کے خلاف مزاحمت کی جا رہی ہے۔
"نیشنل رزسٹنس فرنٹ فار افغانستان" کے خارجی تعلقات کے سربراہ علی میسم ناظری نے سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان کی جانب سے جنگی قیدیوں کی ہلاکت کو جنگی جرائم قرار دیا۔
ادارے افغان وٹنس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس گزشتہ ماہ پنجشیر میں طالبان کی جانب سے کارروائی کے دوران 30 مزید ہلاکتوں کے بارے میں مصدقہ ثبوت موجود ہیں۔