پاکستان کی تاریخ قومی اسمبلی کے شاید ہی ایسے سیشن ہوئے ہوں جن کی کارروائی کئی ہفتوں پر محیط رہی ہو۔ تین اپریل کو عمران خان کے خلاف لائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کا ڈراپ سین آج نئے قائد ایوان کے انتخاب پر ہوا جب شہباز شریف کو 174 ووٹوں کے ساتھ نیا وزیر اعظم چنا گیا لیکن یہ سب کچھ کئی دنوں ، لا تعداد وقفوں، عدالتی مداخلت اور فیصلوں کے بعد ہوا۔
پریس گیلری سے ایوان کی کارروائی دیکھنے والوں نے کم ہی ایسے مواقع دیکھے ہوں گے جب وہ ایک دن سے دوسرا دن آنے تک اپنی کرسیوں سے ہل نہ سکے ہوں۔
آج کی کارروائی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بظاہر معمول ہی کے مطابق ہونا تھی لیکن پریس یا گھروں میں بیٹھے لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ نیا وزیراعظم چننے تک ابھی کئی مراحل باقی تھے۔
ایوان کی کارروائی یوں تو ڈپٹی اسپکر قاسم سوری نے شروع کی، اس کے بعد انہوں نے سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آ ئی کے وزیر اعظم کے لیے امیدوار شاہ محمود قریشی کو مائک دیا۔
شاہ محمود نے اپنے مخصوص انداز میں تقریر کی، اس دوران اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر قائد ایوان کا الیکشن کروایا جائے ۔ ان کی تقریر کا محور مبینہ طور پر سازش بھرا خط تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کو ہٹایا گیا تھا۔ 30 منٹ کے بعد جب ان کی تقریر ختم ہوئی تو ایوان میں تحریک انصاف کی اراکین کی جانب سے مسلم لیگ نون کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔
تقریر کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ وہ کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ تحریک عدم اعتماد لانے کے پیچھے مبینہ طور پر بیرونی طاقت کا ہاتھ تھا، اس لیے وہ ایوان کا نیا قائد منتخب کرنے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ایک دھواں دھار تقریر کے بعد انہوں نے بقول ان کے ایک سازشی خط لہراتے ہوئے کہا کہ وہ اسے چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھانا چاہتے ہیں۔
اسی دوران شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا کہ وہ اور ان کی پارٹی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو رہی ہے اور قائد ایوان کے انتخاب کا حصہ نہیں لے گی ،جس پر ان کی پارٹی کے ارکان عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اٹھ کر ہال سے باہر نکلنے لگے۔
ڈپٹی سپیکر اپنی نشست سے اٹھنے لگے تو صحافیوں کو یہ تشویش ہوئی کہ کہیں سیشن معطل نہ ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوا اور ان کی جگہ مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق سپیکر ایاز صادق نے نشت سنبھالی کیونکہ وہ پینل آف چیئر کے رکن تھے۔
اس موقع پر مہمانوں کی گیلری میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور پارٹی کی رہنما مریم نواز کالے لباس میں ملبوس بیٹھی دکھائی دیں۔ ان کے ساتھ حمزہ شہباز بھی تھے، جن کے حق میں گیلری میں بیٹھے ان کے سپورٹر بار بار نعرے لگاتے اور وہ اس کا ہاتھ ہلا کر جواب دیتے رہے۔
پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کے ہال میں داخل ہوتے ہی 'ایک زرداری سب پر بھاری' کے نعرے لگے۔ پھر جیسے ہی شہباز شریف ہلکے سلیٹی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ارکان کو سلام کرتے ہوئے اپنی نشست کی طرف بڑھے تو ان کے سپورٹرز نے "شیر اک واری فیر" کا نعرہ لگایا جس کا جواب ان کے ممبران نے ڈیسک بجا کر دیا۔
ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے پر ایاز صادق نے اعلان کیا کہ شہباز شریف کو اعتماد کے 174 ووٹ ملے ہیں، جب کہ شاہ محمود قریشی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ اس پر ہال میں تالیاں بجنے لگیں۔
صحافی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر تصاویر اور وڈیوز بنانے لگے، جس پر گیلری کے گارڈز متحرک ہوئے اور انہیں روکا، مگر پوری کی پوری گیلری کو تصاویر لینے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔
شہباز شریف کو وزیر اعظم بنتے ہی جیسے ہی اسپیکر کی جانب سے قائد ایوان کی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کی گئی ، مریم نواز نے مہمانوں کی گیلری میں سےسابق وزیر اعظم نواز شریف کی تصویر آگے کر دی۔
شہباز شریف اپنے تمام اتحادیوں کو مل کر نسشت پر آئے۔ نسشت پر بیٹھتے ہی آصف علی زردای اور بلاول بھٹو نے انہیں مبارک باد دی، جس کے بعد صبح تک اپوزیشن نشتوں پر بیٹھنے والے ارکان اسمبلی حکومتی سیٹوں پر بیٹھنے لگ گئے، جہاں پی ٹی آئی کے ارکان جاتے ہوئے اسمبلی کے ایجنڈے کی پھٹی ہوئی کاپیاں پھینک گیے تھے۔
آصف علی زرداری ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے، جب کی اس سے اگلی نشست پر بلاول بھٹو زرداری آ کر بیٹھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہباز شریف کے سامنے مائک لگا دیا گیا جس پر انہوں نے بطور وزیر اعظم پہلا خطاب کیا۔
خطاب کے دوران کم سے کم اجر ت بڑھانے کی بات پر گیلری سے زور دار نعرے لگائے جانے لگے۔ پیشن میں 10 فی صد اضافے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس دوران پی ٹی آئی کا کوئی بھی ممبر ہال میں موجود نہیں تھا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے تمام ممالک بشمول امریکہ سے اچھے تعلقات بحال کرنے کی بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ضرور رہے ہیں لیکن وہ تاریخی ہیں۔ انہوں نے چین کے ساتھ ملکی تعلقات کو پھر سے بہتر کرنے اور سی پیک پر جلد کام مکمل کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ تقریر لمبی ہونے لگی تو ارکان کے چہروں پر روزے اور دن بھر کی تھکان دکھائی دینے لگی، جب کہ پریس گیلری میں سب کی نظریں اپنی گھڑیوں پر جمی تھیں جس کی سوئیاں سوا چھ بجے شام کا وقت بتا رہی تھیں۔
اسی اثنا میں خطاب ختم ہوا اور سیشن بھی، جس کے بعد بقول صحافیوں کے نئے پاکستان سے پرانے پاکستان تک واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔