یہ رمضان گزشتہ رمضان کی نسبت خاصا مختلف ہے۔ نہ کوئی رونق ہے نہ کوئی سرگرمی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کا اثر اب ذہنوں پر اتنا ہے کہ اس مہینے کی پرجوش روایتیں کچھ ماند سی پڑ گئی ہیں۔
بازار بند ہیں تو گہما گہمی، عید کی تیاری کا جوش اور ولولہ بھی اب نظر نہیں آتا۔ گزشتہ برس ان ہی دنوں میری درزی سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اب وہ مزید کوئی سوٹ کیوں نہیں سی سکتا کیوں کہ اس کے بقول تو 10 رمضان تک بکنگ بند ہوگئی تھی۔
اب یہ حال ہے کہ درزی کا روز ہی فون آ رہا ہے کہ کوئی سوٹ ہے تو دے دیں تاکہ میں کچھ کما سکوں۔ لاک ڈاؤن سے دکان بند ہے اور گھر کا چولہا چلانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
ان حالات میں کیا عید منائیں؟ لیکن ہر ایک کی ضرورت تو ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ سو یہ سوچ کر کہ عید پر نہ سہی، جب یہ وبا ختم ہو گی تب نئے کپڑے پہن کر اپنے پیاروں اور عزیزوں کے ہمراہ کہیں باہر جانا تو ہوگا، ایک دو نئے جوڑے سلوانے میں کوئی حرج نہیں۔
چلو مشہور برانڈ نے تو کپڑوں کی سیل کے ساتھ آن لائن ڈلیوری کا سلسلہ جاری رکھا ہی ہے۔ پر وہ کپڑے جو ملتے ہی دکان پر ہیں یا کسی برانڈ کے نہیں، میچنگ ہے یا کوئی دوپٹہ، وہ کیسے آن لائن منگوائے جائیں؟
وہ دکان دار جو رمضان کا سارا سال انتظار کرتے تھے کہ اس ماہ وہ کوئی اسٹال لگائیں یا کوئی بھی مال بیچیں گے تو خوب منافع ہو گا۔ وہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔ نہ جانے ان کا گزارہ کیسے ہو رہا ہو گا؟
گھر میں کام کرنے والی نے بھی پہلی بار وہ کہا جو کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ "باجی عید کا جوڑا نہیں چاہیے۔ بس راشن دے دیں۔ تاکہ عید گزر جائے۔"
کرونا وائرس نے جہاں سماجی فاصلے بڑھائے ہیں وہیں اپنوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی کیا ہے۔ اب بہت سے گھرانوں کو اپنے ہی گھر میں رہنے والوں کو مزید جاننے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
لیکن تنازعات اور لڑائی جھگڑوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ سماجی فاصلوں کے ساتھ ساتھ جذباتی فاصلوں کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ ایک عام اور سیدھی سی بات لڑائی جھگڑے تک نہ جا سکے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے سب کچھ سیکھا ہے لیکن ایک دوسرے کو اسپیس دینا اب بھی نہیں سیکھا۔ بہت سے گھرانوں میں اختلافات اب عروج پر ہیں اور لوگ دعا کر رہے ہیں کہ جلد یہ وبا ختم ہو اور وہ باہر جا سکیں۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اب چھتوں پر دوستوں کے بجائے فیملیز ہی باربی کیو کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے سبب روزانہ چہل قدمی کے لیے میں نے بھی اب پارک کے بجائے گھر کی چھت کو ایک بہترین آپشن سمجھا ہے۔ رات کے وقت میرا مشاہدہ رہا ہے کہ اب صرف میں ہی نہیں بہت سے لوگ تازہ ہوا کے لیے چھتوں پر ٹہلتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر باربی کیو کا بھی انتظام کرنا شروع کردیا ہے۔ اب وہ بچے جن کے باہر جانے کے وقت متعین تھے یا وہ گلی یا سڑک پر آزادانہ سائیکل نہیں چلا سکتے، اب ان کی نہ صرف سائیکلنگ جاری ہے بلکہ بہت عرصے بعد میں نے لڑکیوں کو بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
پرندوں کی تو نہ ہی پوچھیے۔ جتنے وہ اس وبا کے سبب خوش ہیں شاید ہی کوئی ہو۔ گھر میں رہتے ہوئے میں نے ہر طرح کے پرندوں کی چہچہاہٹ سنی ہے۔
باجرہ چگنے سے لے کر مٹی کے برتن میں ڈالے پانی کو پینے تک وہ سامنے کے درخت پر بیٹھے دیگر پرندوں سے خوب باتیں کر جاتے ہیں۔
کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ اچھا ہے یہ وقت بھی آیا۔ انسانوں کا میل جول کم ہوا تو ہمیں بھی آزادی سے باہر نکلنے کا موقع ملا۔
بہار کا موسم ابھی گزرا ہے لیکن پارکوں میں ویرانی ہے۔ البتہ گلیوں میں بہت دیر تک پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
درختوں پر پتے کھل رہے ہیں۔ لیکن موسم کا استقبال کرنے والے اب ماسک پہنے، سینیٹائزر اور خوف لیے گھروں میں موجود ہیں۔ لیکن جب شام ہوتے ہی گملوں میں لگے گلاب اور رات کی رانی کی مہک صحن کا ماحول بدل دیتی ہے تو یہ امید بھی جگاتی ہے کہ یہ وقت گزر جائے گا، حوصلہ رکھو اور تھوڑا انتظار کرو۔
سڑکوں پر لگے ناکے اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن سخت دھوپ میں پولیس کے پہرے اب بھی موجود ہیں۔ اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز کی تھکاوٹ بڑھ رہی ہے۔ نرسز اب گھر جانے سے بھی ڈرتی ہیں کہ یہ وائرس ان کے ساتھ گھر نہ چلا جائے۔
عید قریب ہونے کے باوجود بازار اور کاروبار اب بھی بند ہیں۔ مساجد سے اذان کی آواز آتی ضرور ہے، لیکن عشا کے بعد تراویح پڑھنے والوں کا گھروں سے جوق در جوق نکلنا اور واپسی پر گلیوں میں بیٹھک کے مناظر اور قہقہوں کی آوازیں اب نظر آتے ہیں نہ سنائی دیتے ہیں۔
یہ رمضان بہت خاموشی سے اور بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس وبا نے سب کچھ کیسے دنوں میں بدل ڈالا جسے بدلنے کا کبھی کسی انسان نے سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک آواز سب کے دلوں میں اٹھتی ہے: حوصلہ کرو، ہمت کرو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔