رسائی کے لنکس

پاکستان میں میڈیا پر طاقتور اداروں کے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے: رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز


اسلام آباد میں صحافتی آزادیوں کے لئے ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک صحافی ۔ فائل فوٹو رائٹرز
اسلام آباد میں صحافتی آزادیوں کے لئے ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک صحافی ۔ فائل فوٹو رائٹرز

صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری عالمی ادارے 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' نے سال 2021 کے لیے صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی سے متعلق اپنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی صورتِ حال بدستور تشویش ناک ہے اور دنیا کے 200 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر پچھلے سال کی طرح اس سال بھی 145 واں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین، بھارت، ایران، سعودی عرب، ویتنام اور شمالی کوریا جیسے ملکوں میں صحافتی آزادیوں کی صورتِ حال بےحد خراب ہے جب کہ ناروے، فن لینڈ اور سوئیڈن بہترین درجہ بندی کے ساتھ بالترتیب پہلے تین نمبروں پر ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں بھی حساس معاملات پر رپورٹنگ صحافیوں کے لیے آسان نہیں رہی۔

'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز' کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ ڈرامائی انداز میں بڑھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کھلی سنسر شپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں ملک کے بعض طاقتور اداروں کی طرف سے دباو ڈالنے کے مختلف طریقے استعمال کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے کا سویلین حکام پر بھی کنٹرول واضح حد تک بڑھا ہے۔

پاکستان کا میڈیا جو متحرک ہونے کی روایت رکھتا ہے، 'رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز'کی رپورٹ کے مطابق، اب ملک کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا ترجیحی ہدف بن گیا ہے۔

'رپورٹر ود آوٹ بارڈر' کی رپورٹ کے مطابق، اخبارات کی ترسیل بالخصوص روزنامہ 'ڈان' کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ میڈیا اداروں کو اشتہارات کی بندش کا کہہ کر دھمکایا گیا ہے۔ ایسے ٹیلی وژن چینلز جو حزبِ اختلاف کو اپنا 'ایئر ٹائم' دیتے ہیں ان کی نشریات کو جام کیا گیا ہے۔

ایسے صحافی جنہوں نے، رپورٹ کے مطابق، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے متعین کی گئی حدود کی خلاف ورزی کی، انہیں حراساں کرنے کی مہم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، "کئی صحافیوں کو سال دو ہزار بیس میں اغوا کیا گیا تاکہ انہیں پیغام دیا جا سکے کہ ایسی سٹوریز نہ کرو جو ناپسندیدہ ہوں ورنہ آپ کا خاندان آپ کو سلامت نہیں دیکھ سکے گا"

بین الاقوامی صحافتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں مرکزی دھارے کے روایتی میڈیا کو قابو کرنے کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی ایسے مواد پر کنٹرول کی تیاری کی جا رہی ہے جو با اختیار اداروں کی پسند کے خلاف ہے۔ اس مقصد کے لیے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے بقول،حکومت آن لائن ریگولیشن لانے کی تیاری کر رہی ہے جس کا مقصد واضح طور پر سنسرشپ ہی ہے۔

'رپورٹرز ود آوٹ بارڈر' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک نیا رجحان جو سامنے آرہا ہے وہ ہے سائبر ہراسمنٹ، یعنی انٹرنیٹ پر حراساں کرنے کا۔ اس طریقے کے تحت رپورٹ کے مطابق صحافیوں بالخصوص خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ کی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق،پاکستان کے مغربی صوبوں،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں رپورٹروں کو بدستور فیلڈ میں خطرات کا سامنا ہے۔ جہاں وہ سکیورٹی فورسز اور مسلح باغیوں کے درمیان لڑائی کا ہدف بن جاتے ہیں۔ سال دو ہزار بیس میں چار صحافیوں کو اپنی صحافتی خدمات کی انجام دہی کے دوران ہلاک کر دیا گیا، بالخصوص ان حالات میں، جبکہ وہ بدعنوانی یا منشیات کی سمگلنگ کے خلاف تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے تھے۔

'رپورٹرز ود آوٹ بارڈر' کے سالانہ انڈیکس میں دنیا کے باقی خطوں اور ممالک میں بھی صحافتی آزادیوں اور صحافیوں کے لیے مشکلات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

بھارت کا شمار بھی رپورٹر ود آوٹ بارڈر کے انڈیکس میں ایسے ممالک میں کیا گیا ہے جو صحافیوں کے لیے خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ 2020 کے دوران بھارت میں چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی کے سال 2019 میں انتخاب کے بعد صحافیوں کے خلاف پولیس، سیاسی کارکنوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب وزیراعظم کی بھارتیہ جنتا پارٹی کا دباو بھی صحافیوں پر بڑھا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست نظریے کا پرچار کریں۔

ایشیا بحرالکاہل خطے کو جس میں 34 ملک شامل ہیں، صحافتی آزادیوں کے حوالے سے بدترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں، بلاگرز کے لیے یہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ چین اور ویت نام کو صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔افغانستان، پاکستان، فلپائن اور بنگلہ دیش بھی اسی خطے کا حصہ ہیں۔

جنوبی امریکہ کے ملکوں میکسیکو، ہندوراس، کولمبیا ،برازیل اور وینزویلا میں کرپشن، سائبر نگرانی اور حکومی تشدد نے آزاد صحافت کی راہ میں سخت مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں ۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ صحافی ریاست کی طرف سے نگرانی کے عمل یا جاسوسی جیسے معاملات پر کھل کر کوریج نہیں کر سکتے۔ امریکہ کی درجہ بندی تاہم ایک درجےبہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ سال دنیا کے بہتر صحافتی آزادی والے ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نمبر45 واں تھا جو اس سال 44 واں ہو گیا ہے۔

صحافتی آزادیوں کے اس عالمی انڈیکس میں بھارت کا نمبر 142 واں ہے۔

ناروے، فن لینڈ اور سویڈن بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر کے ساتھ فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

فہرست میں چین 177ویں، ایران 174 ویں اور سعودی عرب 170 ویں نمبر پر ہیں۔ اریٹریا کا نمبر آخری ہے جو 180 ویں نمبر پر ہے اور شمالی کوریا نیچے سے 179 ویں نمبر کے ساتھ بدترین صورتحال کے حامل ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔

XS
SM
MD
LG