کہتے ہیں کہ امریکہ میں کوئی صدارتی امیدوار تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا، جب تک وہ خواتین کے ووٹ حاصل نہ کرے۔ خواتین عام طور پر ان امیدواروں کو ووٹ دیتی ہیں جو ان معاملات کو اہمیت دیتے ہوں جنہیں خواتین اہم سمجھتی ہیں۔
امریکی ادارہ برائے مردم شماری ’سینسز ڈاٹ گو‘ کی ویب سائٹ کے مطابق 2015ء میں امریکہ میں 25 سال یا اس سے زیادہ عمر کی، کالج کی تعلیم یافتہ خواتین کا تناسب 33 تھا۔ امریکہ کے نیشنل سینٹر فار ایجوکیشن سٹیٹسٹکس یا قومی ادارہ برائے تعلیمی اعداد و شمار کے مطابق، اس سال یعنی 2016ء میں امریکہ میں کالج جانے والی لڑکیوں کی تعداد ایک کروڑ 17 لاکھ ہے، جو اپنے کیرئیر اور ملازمت کے حق کے بارے میں سوچتی ہیں۔
کیرولائن ایمیل جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے پبلک پالیسی میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ امریکہ میں اسقاط حمل کے خلاف چلنے والی تحریکیں ان کی تحقیق کا موضوع رہی ہیں۔ وہ تولیدی اختیار کو عورت کا حق سمجھتی ہے اور ان کے خیال میں عورت کو اپنے وجود پر مکمل اختیار ہونا چاہئے۔
چاہے بات اسقاط حمل کے حق کی ہو یا برتھ کنٹرول تک رسائی کی، کیرولائن کے بقول، ’’میں ذاتی طور پر کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دے سکتی جو ’پروچوائس‘ نہ ہو‘‘۔
کیرولائن کا خیال ہے کہ صنفی برابری، تولیدی حقوق اور غربت کے درمیان گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اُن کے بقول، ’’اسقاط حمل سے متعلق حکومت کی پالیسیاں کم آمدنی کی حامل عورتوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بارے میں جو قانون سازی ریاستیں کرتی ہیں وہ کم آمدنی والی خواتین کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ عورتوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کے قوانین، 72 گھنٹے کا ویٹنگ پیریڈ، وہ سب طریقے ہیں، جن سے اسقاط حمل مخالف نمائندے ان لوگوں کو اس طبی سہولت سے محروم رکھ رہے ہیں، جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘‘۔
انیس سو تہتر میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔ انیس سو بانوے میں سپریم کورٹ نے امریکی ریاستوں کو اسقاط حمل کے لئے کڑی شرائط عائد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سال دو ہزار گیارہ میں امریکہ میں پندرہ سے چوالیس سال کی عمر کی 63ملین یعنی چھ اعشاریہ تین کروڑ خواتین تھیں جن میں چھ ملین یعنی ساٹھ لاکھ خواتین حمل سے تھیں۔ سڑسٹھ فیصد خواتین مائیں بنیں۔ اٹھارہ فیصد نے اسقاط حمل کا راستہ چنا اور پندرہ فیصد کے بچے ضائع ہو گئے۔ سال دو ہزار گیارہ میں امریکہ میں اسقاط حمل مہیا کرنے والے طبی اداروں کی تعداد 1720 تھی۔ اور گیارہ لاکھ عورتوں نے اسقاط حمل کا راستہ اختیار کیا تھا۔
امریکہ میں اسقاط حمل کے خلاف تحریکوں کا آغاز امریکی سپریم کورٹ کے انیس سو تہتر کے فیصلے کے بعد ہوا جو آہستہ آہستہ کلینکس اور طبی عملے پر حملوں کی شکل اختیار کر گیا ۔ انیس سو ترانوے کے بعد سے اب تک امریکہ میں اسقاط حمل کے خلاف پر تشدد حملوں میں گیارہ قتل اور 26 اقدام قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال امریکی ریاست کولوراڈو میں ایک مسلح شخص نےایک ابارشن کلینک میں داخل ہو کر ایک پولیس آفیسر اور دو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
کیرولائن کہتی ہیں کہ اسقاط حمل کے مخالفین کسی ایک وجہ سے اس کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسقاط حمل ممکنہ طور پر ایک بدترین چیز اور اخلاقی مسئلہ ہے، کیونکہ آپ ایک ممکنہ زندگی کو ختم کر رہے ہیں؛ جبکہ ’ابارشن‘ کے حامیوں کے لئے یہ عورت کے حق کا مسئلہ ہے، جس کا تعلق عورت کے اپنےوجود پر کنٹرول سے ہے۔
لیسا میٹز ’امیرکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ویمن‘ نامی تنظیم کی نائب صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی اختیار امریکہ میں ہمیشہ سے ایک اشتعال انگیز موضوع رہا ہے، ایک ایسا موضوع جو امریکی انتخابات میں مزید اہمیت اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ امیدوار تولیدی اختیار پر اپنے رائے کی مدد سے اپنا اور دوسرے امیدوار کا فرق واضح کرتے ہیں۔ لیکن، اس سال ’زکا وائرس‘ کے کیسز سامنے آنے کے بعد امریکہ میں اب یہ بات صرف اسقاط حمل کے حامی یا مخالفین کی نہیں رہی، بلکہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔
لیسا کہتی ہیں کہ ’’ہیلری کلنٹن نے صنفی معاملات پر توجہ دی ہے۔ وہ خواتین کے حقوق اور اہم اشوز کو سمجھتی ہیں۔ وہ قدرے نئی دادی بھی ہیں، اور کام کی جگہوں کی پالیسیوں کے بارے میں فکر کرتی ہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے بچوں کی دیکھ بھال کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ ان کی بیٹی ایوانکا بھی ان معاملوں پر ایک ترقی پسند سوچ رکھتی ہیں‘‘۔
لیکن، لیسا کے بقول، ہیلری کلنٹن کو کچھ بھی آسان نہیں سمجھنا چاہئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خواتین کے ووٹوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔