افغانستان کی جنگ کے بارے میں حالیہ ریپبلیکن مباحثے کا لب و لہجہ پچھلے دو صدارتی انتخابات کے مباحثوں سے مختلف تھا۔ اگلے سال کے صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں میں مٹ رومنی کو سبقت حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ جتنے طویل عرصے سے الجھا ہوا ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیئے جو مستقبل میں ملکوں کی تعمیر کی کوششوں میں حصہ لینا چاہتےہیں۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ ہماری فوجیں واپس آ جائیں سیاست یا معیشت کی بنیاد پر نہیں بلکہ افغانستان کے حالات کی بنیاد پر جن کا تعین ہمارے جنرل کریں گے۔ لیکن میرے خیال میں ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ ہماری فوجوں کو دوسرے ملکوں میں جا کر ان کے لیے آزادی کی جنگ نہیں لڑنی چاہیئے۔ صرف افغانستان کے لوگ ہی طالبان سے افغانستان کو آزاد کرا سکتے ہیں۔‘‘
پچھلے دو صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن امیدواروں نے 2008ء میں جان مکین نے اور2004ء میں صدر جارج ڈبلیو بُش نے افغانستان میں طالبان کو شکست دینے پر زور دیا تھا چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے۔
لیکن اس سال ایسا لگتا تھا کہ کئی ریپبلیکن امیدوار رائے عامہ کے جائزوں کی عکاسی کر رہے ہیں جن سے ظاہر ہوا ہے کہ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس دونوں افغانستان کی تقریباً دس سالہ جنگ سے عاجز آ چکےہیں۔
صرف ایک ریپبلیکن امید وار، ریاست ٹیکسس کے کانگریس مین رون پال افغانستان سے فوری طور پر تمام فوجیں نکالنے پر زور دیتے ہیں۔ ’’میں اپنے جنرلوں کا انتظار نہیں کروں گا۔ کمانڈر ان چیف میں ہوں۔ فیصلے میں کرتا ہوں۔ میں جنرلوں کو بتاتا ہوں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور جتنی جلدی ممکن ہوا، میں انہیں واپس لے آؤں گا۔ میں انہیں عراق سے بھی نکال لوں گا۔ اور میں لیبیا میں جنگ شروع نہیں کروں گا اور میں یمن میں اور پاکستان میں بمباری بند کردوں گا۔‘‘
مباحثے میں شامل کئی ریپبلیکنز نے لیبیا میں نیٹو کے مشن میں امریکہ کے شمولیت کی مخالفت کی۔ ان میں ریاست منی سوٹا کی خاتون رکن کانگریس مشیل بیکہمین بھی شامل تھیں۔ ’’لیبیا میں ہماری پالیسی بڑی حد تک ناقص ہے۔ ہمارے لیے صرف یہ جاننا کافی ہے کہ اس معاملے میں صدر نے قیادت فرانس کے حوالے کر دی ہے۔ لیبیا کے معاملے میں قیادت صدر کے پاس نہیں ہے۔‘‘
افغانستان کے مستقبل کے ساتھ امریکہ کی وابستگی کے بارے میں صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں کے لب و لہجے پر بعض ریپبلیکنز کو مایوسی ہوئی ہے۔
ساؤتھ کیرولائنا کے سینیٹر لینڈسے گراہم اور سینیٹر جان مکین ریپبلیکنز کے اس گروپ میں شامل ہیں جن کا اصرار ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو فوجوں کی واپسی کے کسی ٹائم ٹیبل کا خیال کیے بغیر افغانستان میں برتری حاصل کرنی چاہیئے۔ سینیٹر گراہم کہتےہیں کہ ’’مجھے اس بات پر مایوسی ہوئی کہ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ افغانستان میں ہماری ہار یا جیت کیوں اہم ہے۔ صدارت کے کسی ریپبلیکن امیدوار نے افغانستان کی جنگ جتینے یا ہارنے کی اسٹریٹجک اہمیت پر اظہارِ خیال نہیں کیا۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ریپبلیکن صدارتی مباحثے میں افغانستان کے مسئلے کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ لوگ اب اس جنگ سے تھک گئے ہیں۔ تجزیہ کاراسٹارت روتھنبرگ کہتے ہیں کہ ’’افغانستان میں جتنی کم پیش رفت ہوئی ہے اس پر لوگوں کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہےاور میں یہاں ریپبلیکنز کی بات کر رہا ہوں جو اب تک اس جنگ کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اصل چیز یہ ہے کہ آخری نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اب سے لے کر اگلے انتخاب تک افغانستان میں اور عراق میں کیا ہوتا ہے اصل اہمیت اس بات کی ہے۔‘‘
اگلے ہفتے ایک اور ریپبلیکن امیدوار جنہیں خارجہ پالیسی کا تجربہ ہے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہو جائیں گے ۔ ریاست Utah کے سابق گورنر جان ہینٹسمین منگل کے روز اپنی امیدواری کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔ کچھ دن پہلے تک وہ چین میں صدر اوباما کے سفیر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بیشتر امریکیوں کی اس خواہش کے حامی ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو افغانستان سے بتدریج فوجیں نکالنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔