پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں مبینہ طور پر پولیس حراست میں کم سن طالبِ علم کی ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذمت کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور کے ایک پولیس تھانے میں کم سن طالبِ علم کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف ذمے داروں کے تعین بلکہ اُنہیں قرار واقعی سزا دینے کا بھی یقین دلایا ہے۔
خیال رہے کہ اتوار کی شام پشاور صدر کے پولیس تھانے میں ایک کم سن لڑکے کی ہلاکت کی اطلاع شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ ورسک روڈ کے رہائشی ساتویں جماعت کے طالب علم شاہ زیب ولد خیال اکبر آفریدی کو ایک دکان دار کی رپورٹ پر گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا تھا جہاں پر اُس نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔
البتہ، لڑکے کے والد نے پولیس کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان کے بیٹے کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اس دوران پشاور شہر اور ملحقہ ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد نے تھانے کے باہر احتجاج بھی کیا۔
وزیر اعلیٰ اور گورنر کی ہدایات پر انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کے حکم پر متعلقہ تھانے کے عملے کے خلاف اندراجِ مقدمے کے بعد ایس ایچ او اور متعلقہ محرر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش اور ڈپٹی اسپیکر محمود خان نے بھی متاثرہ لڑکے کے گھر جاکر نہ صرف ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ اُنہیں ذمے دار افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا یقین دلایا۔
کم سن شازیب کی نمازِ جنازہ پیر کو ادا کر دی گئی جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی محمود جان اور اعلیٰ پولیس عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔ نمازِ جنازہ کے بعد ڈپٹی اسپیکر محمود جان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی ہدایت پر ایس ایچ او اور محرر کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ اب اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
پشاور کے سینئر پولیس افسر یاسر آفریدی نے کہا کہ بظاہر یہ واقعہ پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ لہذٰا اس غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
پشاور کے ایک سینئر وکیل اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم نور عالم خان ایڈوکیٹ نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی حراست میں شاہ زیب کی ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اُن کے بقول اس نوعیت کے واقعات پہلے بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی ایک واقعات ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث یا نااہلی کے مرتکب پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ شاہ زیب ایک کم سن لڑکا تھا لہذٰا اسے حوالات میں بند کرنا غیر قانونی تھا۔
اُدھر اس واقعہ میں گرفتار پولیس افسر ایس ایچ او اور محرر کو پشاور کی ایک عدالت میں پیر کو پیش کر کے تین روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔