پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ یورپ سے پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کے معاملے سے متعلق حکومت کے موقف کا مقصد ’ڈی پورٹ‘ یعنی ملک بدر کیے جانے والوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اس سلسلے میں تمام ممالک کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔
اسلام آباد میں جرمنی کی سفیر اینالیپل سے ملاقات میں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تارکین وطن کے معاملے پر تفصیلی گفتگو کی۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ جلد تمام یورپی ممالک کے سفراء کو مدعو کریں گے جس میں یورپی یونین کے ساتھ سلامتی کے شعبے میں تعاون مضبوط بنانے اور باہمی تشویش کے مسائل سے نمٹنے کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے امیگریشن قوانین کی کسی بھی خلاف ورزی میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے سے متعلق یورپی یونین کے خدشات کو سمجھتی ہے اور وہ پاکستان کے اندر اور باہر انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کے ذریعے یورپی ممالک کو غیر قانونی نقل و حرکت کی حوصلہ شکنی کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق جرمن سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک ملک بدر کیے جانے والے افراد کے مسئلے پر ایک الگ ’پروٹوکول‘ یا طریقہ کار کے امکان کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔
تارکین وطن کا معاملہ ان دونوں عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ شام اور لڑائی سے متاثرہ دیگر ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ پناہ کے لیے یورپی ممالک پہنچے ہیں۔
یورپی یونین کے ممالک کا کہنا ہے کہ وہ تارکین وطن جو بہتر روزگار کے حصول کے لیے یورپ آئے ہیں اُنھیں واپس بھیج دیا جائے گا۔
رواں ہفتے ہی یورپی ممالک سے 60 افراد کو ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد بھیجا گیا تھا لیکن اُن میں سے 30 تارکین وطن کو پاکستانی شناختی کارڈ نا ہونے پر واپس بھیج دیا گیا۔
اسلام آباد میں یورپی یونین کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق پاکستانی حکام کو یورپ کے تین ممالک سے 61 افراد کے نام بھیجے گئے تھے جنہیں ان ممالک میں موجود پاکستانی سفارتخانوں نے سفری دستاویزات جاری کی تھیں۔
لیکن یورپی یونین کے مطابق ناموں کی فہرست اور پاسپورٹ نمبر موصول ہونے کے بعد پاکستانی وزارت داخلہ نے کہا کہ صرف ان افراد کو قبول کیا جائے گا جن کے شناختی کارڈ نمبر بھی موجود ہوں گے۔
یورپی یونین کے مطابق شناختی کارڈ نمبر کی شرط پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تارکین وطن سے متعلق معاہدے کا حصہ نہیں اور امید کی جا رہی تھی کہ پاکستانی حکام واپس آنے والے افراد کے کوائف کی تصدیق اُن کے پاسپورٹ نمبروں کے ذریعے کرنے کے بعد اُنھیں قبول کر لیں گے۔
پاکستان کے وزیر داخلہ نے یورپی یونین کے ساتھ 2009 میں غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان واپس بھیجنے سے متعلق ایک معاہدے کو گزشتہ ماہ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ بغیر وجہ بتائے یورپ سے بھیجے جانے والے کسی شخص کو قبول نہیں کیا جائے گا اور اُن کے بقول وزارتِ داخلہ کی اجازت اور پاکستانی سفری دستاویزات کے بغیر تارکین وطن کو پاکستان لانے والی ائیر لائن پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسی سلسلے میں یورپی یونین کے کمشنر برائے مائیگریشن دمیترس اوراماپولس نے بھی گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستان کا دورہ کیا، جس میں وزارت داخلہ کے بقول پاکستان کو یقین دہانی کروائی گئی کہ آئندہ پاکستان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک واضح طریقہ کار کے تحت یورپ سے پاکستانی تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے گا۔