افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کو تقریباً ایک ہفتہ گزرنے کے بعد ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ تا حال بینکوں کی بندش اور بے روزگاری کے سبب افغان شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
دارالحکومت کابل کے ایئرپورٹ کے باہر ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہزاروں شہری موجود ہیں۔ یہ مناظر شہر میں افراتفری کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنے والی افغانستان کی کمزور معیشت طالبان کے کنٹرول کے بعد بے یقینی کے دور سے گزر رہی ہے جس کے باعث افغان شہریوں کو خوراک اور رہائش کے مسائل کا سامنا ہے۔
ملک کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں ایک سابق پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ "میں مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ مجھے سب سے پہلے اپنی جان بچانے کی فکر کرنی چاہیے یا اپنے بچوں اور خاندان کے پیٹ پالنے کی۔‘‘
ملازمت سے محروم ہونے والے سابق پولیس اہلکار کی ماہانہ تنخواہ 260 ڈالرز تھی جس سے وہ اپنی بیوی اور چار بچوں کی کفالت کرتے تھے۔
اسی طرح ایک کم تنخواہ پر کام کرنے والے سرکاری ملازم کا کہنا تھا کہ "میں ایک کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہوں، میں نے بچھلے تین ماہ سے کرایہ ادا نہیں کیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے کے دوران اپنی اہلیہ کی سونے کی چند انگوٹھیاں اور بُندے فروخت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دیگر کاروبار کی طرح سونے کی خرید و فروخت کا کاروبار بھی بند تھا جس کی وجہ سے وہ کوئی خریدار نہیں ڈھونڈ پائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں بے یار و مددگار ہوں مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں۔
گزشتہ اتوار طالبان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول کرنے سے قبل صورتِ حال اس وقت خراب ہونا شروع ہو گئی تھی جب طالبان کی صوبائی شہروں کی جانب پیش قدمی کی وجہ سے مقامی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں گر گئی تھی۔ مقامی کرنسی کی قدر میں اس کمی کے باعث اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
چند ہی دنوں میں آٹا، گھی، تیل، چاول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 10 سے 20 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جب کہ بینکوں کی بندش کی وجہ سے شہری اپنا سرمایہ نہیں نکال سکے۔
دوسری جانب ویسٹرن یونین کے دفاتر بند ہونے کی وجہ سے غیر ملکی ترسیلات کا سلسلہ بھی رک گیا۔
طالبان کی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے روپوش ایک سابق سرکاری ملازم کا کہنا ہے کہ تمام تر مسائل ڈالر کی صورتِ حال کی وجہ سے ہیں۔ان کے بقول چند دکانیں کھلی ہوئی ہیں لیکن بازار خالی ہیں۔
اگرچہ ہمسایہ ملک پاکستان کی سرحد پر آمد ورفت بحال ہوگئی ہے لیکن افغانستان کے بیش تر علاقوں میں قحط سالی کی صورتِ حال ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس صورت حال کے باعث مضافات اور دور دراز علاقوں کے لوگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور وہاں خیمہ بستیوں اور عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب اتوار کو بین الاقوامی امدادی گروپوں کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تجارتی پروازوں کی معطلی کا یہ مطلب ہے کہ ملک میں ادویات اور دیگر امداد کی فراہمی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ایک اور سابق سرکاری ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ یہ صرف حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ مجھ جیسے ہزاروں افغان شہری جن کا گزر بسر ماہانہ 200 ڈالر تنخواہ پر ہوتا تھا ان کی زندگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی مقروض ہیں کیوں کہ حکومت نے ہمیں پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں۔
ان کے بقول میری بوڑھی ماں بیمار ہے اسے دوا کی اور میرے بچوں اور خاندان کو خوراک کی ضرورت ہے۔ خدا ہماری مدد کرے۔