برما میں تشدد کے ایسے واقعات، جن کے نتیجے میں تقربیاً 3 لاکھ 80 روہنگیا مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہونا پڑا، امریکی انتظامیہ کو فوجی غلبے کی اس کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی پر مجبور کر رہے ہیں ۔ انسانی ہمددردی کا یہ بحران میانمار کی مشہور جمہوری شخصیت آنگ سان سوچی کے ساتھ واشنگٹن کے قریبی تعلق کو متاثر کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
روہنگیا مسلمان ہزاروں کی تعداد میں بنگلہ دیش پہنچ رہے ہیں۔ وہ بودھ اکثریت کے میانمار سے فرار ہو رہے ہیں، جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انہیں نسلی تطہیر کی ایک واضح مثال کا سامنا ہے۔ میانمار کی حکومت اس إلزام کی ترديد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ تشدد کے ذمہ دار روہنگیا کے شورش پسند ہیں۔
یہ اس حوالے سے تازہ ترین علامت ہے کہ میانمار میں فوجی ہنتا سے جمہوریت کی جانب منتقلی اپنے راستے سے ہٹ سکتی ہے اور یہ حالات واشنگٹن میں تشویش پیدا کررہے ہیں۔
ڈیمو کریٹک سینیٹر بن کارڈن کہتے ہیں کہ برما کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس بحران کو ختم کرے۔ میرا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ یہ واضح کر سکتی ہے کہ یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
بیشتر تنقید برما کی فی الواقع لیڈر آنگ سان سوچی پر مرکوز ہے ۔ جمہوریت کی پرانی علمبردار روہنگیا کے مسئلے پر اپنی خاموشی کی وجہ سے اب مذمت کا ایک ہدف ہیں۔
تجزیہ کار جوشوا کورلینٹ زک نے اسکائپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا آنگ سان سوچی فوج کو روک سکتی ہیں ۔غالباً نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر و ہ چاہیں تو کچھ اقدامات کر سکتی ہیں۔
اگر وہ فوج کو روکنے میں بے بس ہیں تو بھی بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو تسلیم تو کریں۔
برما کے انسانی حقوق کے ایک علمبردار میونگ زیرنی نے اسکائپ کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بجائے نوبیل انعام یافتہ شخصیت نے اس مسئلے کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کیا ہے اور بعض أوقات تو انہوں نے روہنگیا کو ایک خطرہ تک قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا کے مخصوص مسئلے پر آنگ سان سوچی اور برما کی فوج دونوں کا ایک ہی نقطہ نظر ہے۔
لیکن واشنگٹن میں کچھ لوگ ابھی تک آنگ سان سوچی کو میانمر میں جمہوری تبدیلی کے لیے بہترین امید خیال کرتے ہیں ۔ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر، ری پبلکن سینیٹر مچ مک کونیل کہتے ہیں کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب آنگ سان سوچی ایک بہت ہی مشکل صورت حال میں ہیں، امریکہ کی جانب سے انہیں ایک طرح سے الگ تھلگ کرنا اور انہیں لیکچر دینا نا فائدہ مند نہیں ہے۔
لیکن اب برداشت ختم ہو رہی ہے ۔ گذشتہ ہفتے امریکی سینیٹرز کے ایک دوجماعتی گروپ نے ایک بیان جاری کیا جس میں آنگ سان سوچی سے کہا گیا کہ وہ اپنے اثر انگیز الفاظ پر قائم رہیں اور روہنگیا کے خلاف ہونے والے بہیمانہ تشدد سے نمٹیں ۔ اس ہفتے سینیٹر جان مک کین نے اعلان کیا کہ وہ میانمر کی فوج کے ساتھ امریکی تعاون میں توسیع کی ایک تجویز واپس لے رہے ہیں۔
برما میں انسانی حقوق کے ایک علمبردار، میونگ زیرنی کہتے ہیں کہ یہ پہلا قدم ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے پیشتر کہ ہم کچھ کر سکیں، امریکہ کو چاہیئے کہ وہ اقوام متحدہ کو اس بارے میں قائل کرنے کی کوششوں کی قیادت کرے کہ وہ برما کی حکومت کی جانب سے اس کے نام پر کئے جانے والے جرائم کو ایک قتل عام قرار دے اس سے کم کچھ نہیں۔