میانمارکے صوبے رخائن میں جاری بدامنی، فوجی آپریشن اور شدت پسندوں کے حملوں سے جان بچا کر بنگلہ دیش ہجرت کرنے والے روہنگا مسلمانوں کی بڑی تعداد کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
امدادی تنظیموں کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔
بنگلہ دیشی شہری نہ ہونے کے سبب انہیں کام یا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں۔
ایسے میں، روہنگا پناہ گزین اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔ کچھ نے چھوٹی چھوٹی دکانیں سجا لیں اور کچھ کھانا پکا کر فروخت کرنے لگے ہیں۔
بنگلہ دیش کے پالونگ کھالی پناہ گزین کیمپ میں 12سالہ محمد ایاز ’پیازو‘ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ ’پیازو‘ ایسی ڈش ہے جو پیاز، دالوں اور مصالحوں کے آمیزے سے تیار کی جاتی ہے۔
محمد ایاز پیازو کی ایک پلیٹ بنگلہ دیش کی مقامی کرنسی ٹکا کے لحاظ سے ایک ٹکہ جبکہ امریکی کرنسی کے حوالے سے ایک سینٹ سے زیادہ میں بیچتے ہیں۔ پیازوان کی والدہ تیار کرتی ہیں۔
برطانوی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے محمد ایاز نے کہا ’'ہم نے امدادی پیکیج میں ملنے والے سامان سے یہ کام شروع کیا ہے۔ کوئی چیز خریدی نہیں، پانچ دن پہلے جو امدادی پیکیج ملا تھا اس سے میری والدہ نے پیازو تیار کیا۔'‘
ابو الفیاض، جن کی عمر 50 سال ہے۔ ان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ رخائن میں سبزی بیچتے تھے اور اب امدادی کیمپ میں ہری مرچیں فروخت کرتے ہیں۔ فیاض کا کہنا تھا’'ایک بنگلہ دیشی نے انہیں رقم ادھاردی جس سے مرچیں بیچنے کا کام شروع کیا۔'‘
وہ ایک کلو ہری مرچ 200 ٹکا یا 2 اعشاریہ 39 ڈالر 2 میں بیچتے ہیں جو کہ مقامی مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ ہے۔ مقامی مارکیٹ میں ایک کلو ہری مرچ کا پیکٹ 130 ٹکا میں ملتا ہے۔
فیاض کا کہنا ہےکہ '’میرے پاس دوسری سبزیاں فروخت کرنے کے پیسے نہیں ہیں اس لئے قرض لے کر کام شروع کیا۔ مجھے قرض دینے والے کوزیادہ پیسے دینے پڑتے ہیں اس لئے منافع کم ہوتا ہے۔‘'
میانمار میں گھڑیاں فروخت کرنے والے 40سالہ عبید المنان کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ فوج نے ان کے گھر جلا دئیے اور متعدد لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ عبید اب مہاجر کیمپ میں پان فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بیوی کے پاس موجود 9گرام سونا بیچ کر کام کا آغاز کیا۔ عبید کو شکوہ ہے کہ یہاں ہر دوسری دکان پر وہی چیز فروخت ہو رہی ہے جو میں بیچ رہا ہوں۔
کچھ بنگلہ دیشی دکانداروں نے روہنگا کو کیمپوں میں دکانیں چلانے کے لئے ملازم رکھ لیا ہے۔ کلیم اللہ اپنے چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ میانمار سے آئے ہیں۔ وہ کیمپ میں اسنیکس اور مرچیں 100 ٹکا روز دہاڑی پر بیچتے ہیں۔
میانمار میں گڈز ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والے کلیم اللہ کو بتایا گیا کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنا کاروبار نہیں کر سکتے۔ دو بنگلہ دیشی حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ روہنگا مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے شہری نہیں ہیں۔
بنگالی وزارت داخلہ کے سینئر اہلکار کے مطابق روہنگا کو ہر طرح کی انسانی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن، میانمار کی حکومت کو ان کو واپس لینا ہوگا۔
عبدالرزاق نے کیمپ میں تین مہینے پہلے دکان کھولی اور وہ چھریاں اور مٹی کے برتن بیچتے ہیں۔ دکان کا کرایہ، دو ملازموں کو تنخواہ اور سامان کو قریبی قصبے سے لانے کے اخراجا ت ادا کرنے کے بعد عبدالرزاق 2000 ٹکا پر500 ٹکا کا منافع کما لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے میرا منافع کام کے لحاظ سے تھوڑا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، روہنگا مسلمانوں کو 25 اگست سے میانمار کی فوج اور بدھ شدت پسندوں کی جانب سے قتل، ریپ اور گھر جلائے جانے کا سامنا ہے۔
جواب میں روہنگا جنگجو سیکورٹی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں قائم روہنگا مسلمانوں کے پناہ گزین کیمپوں میں دیگر مختلف مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسمگلنگ کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔