افغانستان کا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے 18 سال تک جاری رہنے والی افغان جنگ کے پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تو امریکہ مخالف شدت پسند گروپ بھی پاکستان کے دُشمن بن گئے۔ پاکستان میں خود کش حملے شروع ہوئے تو وہیں پاکستانی حکام کے مطابق ملکی معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد اکتوبر 2001 میں امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج نے شدت پسند تنظیم القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر حملہ کرنے سے قبل پاکستان کو اپنا حلیف بنا لیا تھا۔
امریکہ نے جب القاعدہ کے خلاف اعلان جنگ کیا تو اسے اتحادیوں کی مدد کی ضرورت پڑی۔
اس سے قبل پاکستان امریکہ کا ساتھ افغانستان میں ہی لڑی جانے والی سویت یونین کے خلاف جنگ میں ساتھ دے چکا تھا۔
افغانستان کا پڑوسی ملک ہونے کے باعث امریکہ کو پاکستان کی مدد درکار تھی۔ لہٰذا اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے پاکستان سے مدد طلب کی۔
رچرڈ آرمٹیج کی تنبیہ اور پاکستان کا تعاون
نائن الیون حملوں کے دوران پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور جنرل پرویز مشرف آرمی چیف اور ملک کے صدر بھی تھے۔
افغانستان کے ساتھ طویل سرحد اور جغرافیائی لحاظ سے اہم ملک ہونے کی بدولت امریکہ نے پاکستان سے تعاون طلب کیا۔
امریکہ کو مطلوب اُسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے افغان طالبان کے قریب سمجھے جانے والے پاکستانی مذہبی رہنماؤں نے افغانستان کے دورے بھی کیے۔ البتہ طالبان کے امیر ملا عمر کو قائل کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔
اس دوران یہ خبریں بھی عام رہیں کہ اُس وقت کے امریکی نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے پاکستان کو تعاون نہ کرنے پر 'دھمکی دی کہ بمباری کے ذریعے اسے پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔'
پرویز مشرف نے بھی مختلف مواقعوں پر انٹرویو کے دوران اس دھمکی کی تصدیق کی۔ البتہ رچرڈ آرمٹیج نے 2006 میں امریکی ٹی وی 'این بی سی' نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کی تردید کی تھی۔
رچرڈ آرمٹیج نے کہا تھا کہ پاکستان سے صرف یہ کہا گیا تھا کہ کیا وہ امریکہ کے ساتھ ہے یا نہیں؟
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی پاکستان میں فوجی حکومت کی مخالف مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھرپور مخالفت کی۔
البتہ جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں قرار دیا۔ پرویز مشرف نے کہا تھا کہ "امریکہ سے محاذ آرائی کی صورت میں پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔"
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں دو دشواریوں میں سے ایک کو چننا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں میں ایسی دشواری سے نمٹنے کا انتظام کریں جو نسبتاً آسان ہو۔
پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور امریکہ کو اپنے فوجی ہوائی اڈے فراہم کیے جہاں سے امریکہ افغانستان میں شدت پسندوں پر حملے کر سکتا تھا۔
پاکستان نے امریکہ کو اتحادی فوجوں کو سامان کی ترسیل کے لیے راہداری اور دیگر لاجسٹک معاونت بھی فراہم کی۔
فرنٹ لائن اتحادی اور امریکی امداد
پاکستان کے ان اقدامات کے بعد امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی تسلیم کیا اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے بدلے کروڑوں ڈالرز امداد بھی دی۔
افغانستان میں جنگ شروع ہونے سے القاعدہ کے متعدد رہنما پاکستان آ گئے اور مختلف شہروں میں روپوش ہو گئے۔
پرویز مشرف نے اپنی کتاب 'ان دی لائن آف فائر' میں لکھا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کے 689 دہشت گرد پکڑے جن میں سے 369 کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ جس کے بدلے امریکہ نے پاکستان کو بھاری معاوضہ دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر 2003 میں امریکہ نے پاکستان کے ذمے واجب الادا ایک ارب ڈالرز کا قرض معاف کرنے کا بھی اعلان کیا۔
سابق امریکی صدر جارج بش نے 2004 میں پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم اتحادی ملک بھی قرار دیا۔
امریکہ کی کانگریس میں پیش کی گئی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو فوجی اور معاشی معاونت کے لیے 2001 سے 2013 تک 25 ارب ڈالرز سے زائد رقم دی۔ فوجی معاونت کے لیے پاکستان کو 18 ارب ڈالر سے زائد اور معاشی معاونت کے لیے آٹھ ارب ڈالرز سے زائد رقم فراہم کی گئی۔
پاکستان میں ڈرون حملے
افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ نے جنگ شروع کی تو طالبان نے پاکستان اور افغانستان کے سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں پناہ لی اور رفتہ رفتہ ان علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا۔
امریکہ نے 2004 میں طالبان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کیے۔
پاکستان کی حدود میں شدت پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے پہلا ڈرون حملہ 18 جون 2004 کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں ہوا جس کے بعد پاکستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخری ڈرون حملہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے نزدیک جون 2018 میں کیا گیا تھا۔
ڈیٹا مرتب کرنے والے ایک ادارے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ حملے 2010 میں ہوئے جب امریکہ نے پاکستان کے مختلف قبائلی اضلاع میں 115 سے زائد ڈرون حملے کیے۔
واضح رہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستانی حکام اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے اور پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی امریکہ کی جانب سے ہونے والے ڈرون حملوں کے شدید مخالف تھے۔
عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف نومبر 2013 میں دھرنا دیتے ہوئے اتحادی فوجوں کو سامان کی ترسیل بھی روک دی تھی۔ خیال رہے کہ اُس وقت پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ جہاں سے اتحادی افواج کے لیے سپلائی براستہ پاکستان افغانستان جاتی تھی۔
ڈو مور
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے امریکہ کی جانب سے بارہا 'ڈو مور' کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکثر و بیشتر کشیدہ بھی ہوتے رہے ہیں۔ اور امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا جس کے باعث پاکستانی حکام امریکہ سے احتجاج اور پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہ کرنے پر شکوہ کرتے رہے ہیں۔
امریکہ نے 11 جون 2008 کو پاکستان کے ایک سرحدی علاقے میں ایک فضائی حملہ کیا جس میں پاکستان نے اپنے 11 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
سال 2008 میں امریکی حکام کی طرف سے پاکستان سے یہ شکوہ بھی کیا جاتا رہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ نہیں ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات 2011 میں اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جب امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی لاہور میں فائرنگ سے دو افراد کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آیا۔
اس کے بعد دو مئی 2011 کو امریکہ کی جانب سے ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت نے تعلقات میں خلیج مزید گہری کر دی۔
نومبر 2011 میں اتحادی افواج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے سلالہ کی چوکی پر ایک فضائی حملہ کیا جس میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس واقعے نے پاکستان اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سلالہ حملے کے بعد پاکستان نے امریکہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جس سے امریکہ کے انکار کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات تقریباً سات ماہ تک معمول پر نہ آ سکے۔
پاکستان نے اس واقعے کے ردِ عمل کے طور پر نیٹو افواج کو پاکستان سے ہونے والی سامان کی ترسیل بھی روک دی جس سے امریکہ کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس وقت کے امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو رسد بند کرنے کے نتیجے میں امریکہ کو ماہانہ 100 ملین ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑے۔
امریکہ کی جانب سے 2018 میں پاکستان سے دوبارہ ’ڈو مور‘ کا مطالبہ سامنے آیا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
امریکی محکمہ دفاع نے بھی اس موقع پر بیان جاری کیا تھا کہ پاکستان سے امریکہ کی توقعات بالکل صاف اور واضح ہیں کہ طالبان، حقانی نیٹ ورک اور افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں اب نہیں ملنی چاہئیں۔
افغان جنگ اور پاکستان میں دہشت گردی
افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر شدت پسندوں نے پاکستان کو بھی نشانہ بنایا اور پاکستان میں حملے کرنا شروع کیے۔
امریکہ کا ساتھ دینے پر ماضی میں پاکستان کی حمایت سے افغانستان میں سرگرم رہنے والے عسکری گروہوں نے پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے خلاف حملوں کو جائز قرار دیا۔
اس دوران پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے طول و عرض میں خود کش حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دہشت گردی کے لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سال 2009 تھا جب دہشت گردوں کے مختلف حملوں میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان میں 2008 میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) منظم ہوئی اور اس نے پاکستانی فوج کے علاوہ شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ تحریک طالبان نے خاص طور پر مالاکنڈ ڈویژن یعنی سوات کے علاقوں میں اپنا اثر و رُسوخ بڑھایا۔
پاکستان کی فوج نے 2009 میں آپریشن راہِ راست کے نام سے سوات میں آپریشن کا آغاز کیا۔
پاکستانی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
افغان امن عمل اور پاکستان کا کردار
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے پاکستان کے کردار کو بھی اہم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مختلف مواقعوں پر مذاکرات کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
البتہ 2018 میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے بھی پاکستان کا تعاون طلب کیا۔
امریکہ سمیت افغانستان کے تمام ہی فریق ان مذاکرات میں پاکستان کے کردار کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے رہے ہیں۔
افغان طالبان کے ایک وفد نے اکتوبر 2019 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
پاکستان کا یہ ریاستی بیانیہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کا خواہاں ہے۔ کیوں کہ افغانستان میں امن پاکستان میں بھی امن کی ضمانت ہے۔
مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ امریکہ، افغان امن معاہدہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔ اس سے نہ صرف خطے میں دہشت گردی کم ہو گی بلکہ دونوں ملکوں کے لیے ترقی کا سفر بھی تیز ہو سکے گا۔