'الیکشن کمیشن آف پاکستان' کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق اس وقت ملک میں نوجوان رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ ہے۔ جن کی عمریں اٹھارہ سے پچیس برس کے درمیان ہیں جب کہ کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔
پاکستان مئی میں متوقع انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ ملک کی ہر سیاسی جماعت تبدیلی کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
لیکن کیا نوجوان ووٹروں کی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ شرکت سے ملک کے حالات میں تبدیلی ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے متعلقہ فریقین سے رابطہ کیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے 'وائس آف امریکہ' سے اپنی گفتگو میں کہا کہ اگرچہ یہ تعداد خوش آیند ہے مگر اس سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں زیادہ تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
کنو ر دلشاد نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ نوجوانوں کا ووٹ بینک صرف اسی سیاسی جماعت کے حصے میں آسکتا ہے جس کےمنشور میں ملک کی موجودہ صورتحال میں تبدیلی اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے واضح لائحہ عمل پیش کیا گیا ہو۔
سیاسی منشور کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے 'نیشنل یوتھ اسمبلی' کے صدر حنان علی عباسی نے کہا کہ انہیں کسی جامع منشور کے باوجود بھی ملک کی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے پاکستانی نوجوانوں کی مکمل حمایت حاصل نہیں کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی جماعت 'پاکستان تحریکِ انصاف' اور کینڈین پاکستانی عالم طاہرالقادری کی ان کوششوں کے باوجود کہ موجودہ سیاسی نظام کو چیلنج کیا جاسکے، حکمران جماعت پی پی پی اور اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی سیاسی قوتیں رہیں گی۔
لیکن مجموعی طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو امید ہے کہ ملک میں بتدریج تبدیلی ممکن ہے۔
پاکستان مئی میں متوقع انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ ملک کی ہر سیاسی جماعت تبدیلی کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
لیکن کیا نوجوان ووٹروں کی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ شرکت سے ملک کے حالات میں تبدیلی ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے متعلقہ فریقین سے رابطہ کیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے 'وائس آف امریکہ' سے اپنی گفتگو میں کہا کہ اگرچہ یہ تعداد خوش آیند ہے مگر اس سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں زیادہ تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
کنو ر دلشاد نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ نوجوانوں کا ووٹ بینک صرف اسی سیاسی جماعت کے حصے میں آسکتا ہے جس کےمنشور میں ملک کی موجودہ صورتحال میں تبدیلی اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے واضح لائحہ عمل پیش کیا گیا ہو۔
سیاسی منشور کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے 'نیشنل یوتھ اسمبلی' کے صدر حنان علی عباسی نے کہا کہ انہیں کسی جامع منشور کے باوجود بھی ملک کی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے پاکستانی نوجوانوں کی مکمل حمایت حاصل نہیں کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی جماعت 'پاکستان تحریکِ انصاف' اور کینڈین پاکستانی عالم طاہرالقادری کی ان کوششوں کے باوجود کہ موجودہ سیاسی نظام کو چیلنج کیا جاسکے، حکمران جماعت پی پی پی اور اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی سیاسی قوتیں رہیں گی۔
لیکن مجموعی طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو امید ہے کہ ملک میں بتدریج تبدیلی ممکن ہے۔