بھارت اور ایران نے ہفتے کے روز 9 معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کا کنٹرول 18 مہینوں کے لیے دہلی کے سپرد کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
85 ملین ڈالر کا یہ پراجیکٹ گوادر کی بندر گاہ سے محض 90 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، گوادر بندگارہ کو چین سی پیک منصوبے کے تحت مکمل کر رہا ہے۔
بھارت چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کے زمینی راستے کو بائی پاس کرکے ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ اس بندر گاہ کے توسط سے وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی حاصل کی جائے۔
تاہم اس پراجیکٹ پر کام کی رفتار سست ہے کیونکہ یہ خدشات موجود ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کر سکتی ہے۔
چاہ بہار بندرگاہ کے پہلے فیز شاہد بہشتی پورٹ کے آپریشنل کنٹرول کی 18 مہینوں کی لیز کے معاہدے پر دستخط ایران کے صدر حسن روحانی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ہوئے۔ حسن روحانی بھارت کے دورے پر ہیں۔
معاہدوں پر دستخطوں کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا کہ دونوں ملک دوطرفہ تعلقات میں اضافہ اور اقتصادی ترقی میں تعاون کے خواہاں ہیں۔
اس موقع پر وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ ہم چاہ بہار زاہدان ریلوے لنک پر کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس بندرگاہ کی عملی افادیت میں اضافہ ہو سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔