پاکستان میں اقتصادی بحران کے خاتمے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے ’بیل آؤٹ پیکج‘ کے لیے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، گو کہ حکومت کے بقول، ’’اس فیصلے سے اقتصادی استحکام آئےگا‘‘۔ لیکن، دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔
منگل کو کرنسی مارکیٹ میں شدید عدم استحکام دیکھا گیا اور ایک ہی دن میں انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً آٹھ فیصد تک کم ہوگئی۔
انٹر بینک مارکیٹ، یعنی بینکوں کے مابین ڈالر کی لین دین کی منڈی میں ڈالر 139 روپے کی بلند ترین سطح پر فروخت ہوا۔
کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین بیل آؤٹ پیکج کے لیے جن شرائط پر بات ہو رہی ہے اس سے روپے کی قدر پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق، آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے، سبسڈی ختم کی جائے شرح سود بڑھایا جائے اور روپے کی قدر کو کم کیا جائے۔
’ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان‘ کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ کے مطابق، جب ایک مرتبہ روپے کی قدر کم ہونے لگے تو سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے اور ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’جب انٹر بینک میں ڈالر مہنگا ہوا تو پھر اوپن مارکیٹ میں لوگوں نے ڈالر خریدنا شروع کر دیے جس سے طلب بڑھ گئی‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ عام تاثر یہ ہے کہ روپے کی قدر میں 17 فیصد تک کمی ہو گی اس لیے خیال کیا جا رہا ہے کہ ڈالر مزید بڑھے گا۔
ظفر پراچہ کے مطابق، روپے کی قدر کے بارے میں مختلف افواہوں پر حکومت کی جانب سے تردید سامنے نہ آنے کی وجہ سے بھی روپیہ دباؤ کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ دسمبر کے بعد سے اب تک یہ پانچویں مرتبہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں اس وقت ڈالر 134 روپے سے 136 روپے کے درمیان میں فروخت ہو رہا ہے۔
پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اور اسٹیٹ بینک کے پاس نو ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں جن سے محض دو ماہ کا برآمدی بل ادا کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب، وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر تک پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کی مد میں آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ایسی معاشی صورت حال میں روپے کی قدر پر دباؤ رہے گا جب کہ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی بڑھے گی۔