ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق روس کے طیاروں نے شمالی شام میں داعش سے برسرپیکار باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے، جن میں وہ باغی بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روسی طیارے شام کی عراق اور اردن کے ساتھ سرحد کے قریب ایک علاقے میں کچھ عرصے سے سرگرم نہیں تھے جس سے روسیوں کے عزائم کے بارے میں ’’شدید خدشات‘‘ نے جنم لیا ہے۔
عہدیدار نے جمعرات کو کہا کہ ’’ہم روسیوں سے سوال کریں گے کہ انہوں نے یہ کارروائی کیوں کی اور یہ یقین دہانی مانگیں گے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔‘‘
ماضی میں امریکہ نے روس کی شام میں موجودگی پر تنقید کی ہے اور بارہا ملک میں روسی فورسز کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا ہے۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ روس صدر بشارالاسد کے اقتدار کو سنبھالا دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔
جمعرات کو ہونے والی بمباری سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے ایک دن قبل ہی امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے روس اور شام کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس سال کے اوائل میں تین ملکوں کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کا احترام کرے۔
جان کیری نے بدھ کو ایرانی عہدیداروں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’’روس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا صبر لامحدود نہیں ہے۔ درحقیقت اس معاملے میں یہ بہت محدود ہے کہ اسد کا احتساب کیا جائے گا یا نہیں۔‘‘
امریکی فوج 2015 کے اوائل سے شام کے اعتدال پسند باغیوں کی داعش کے خلاف جنگ کی تربیت کے لیے ایک پروگرام چلا رہی ہے۔ اس پروگرام کو محدود کامیابی حاصل ہوئی ہے اور امریکہ کے محکمہ دفاع نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے باغیوں کے پورے یونٹوں کے بجائے محدود تعداد کو تربیت دینا شروع کی ہے۔