روس، چین، ایران اور پاکستان کے اعلیٰ سفارت کاروں نے جمعرات کو سرقند میں ایک کانفرنس میں شرکت کی جس میں افغانستان کی صورت حال کے پیش نظر علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ چار ممالک کے وزرائے خارجہ نے سمرقند، ازبکستان میں ملاقات کی جس میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے اور انسانی بحران پر کنٹرول کے لیے افغان حکام کے ساتھ تعاون کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا۔
وزرانے افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کی کوششوں کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنے پر بھی بات کی۔
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھی جمعرات کو اجلاس میں شرکت کی۔ متقی کے دفتر نے ٹوئٹر پر سمرقند میں ان کی آمد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ازبک عہدہ داروں نے ان کا "پرتپاک استقبال" کیا۔
روس اور چین ان چند ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنے سفارتی مشن افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رکھے ہوئے ہیں۔
طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے ماسکو نے برسوں تک اس کے باوجود کام کیا ہے جب کہ اس نے 2003 میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار کر دیا تھا۔ روس نے ابھی تک طالبان کو اس فہرست سے نہیں نکالا ہے۔
ماسکو افغانستان پر مذاکرات کے کئی ادوار کی میزبانی کر چکا ہے جن میں طالبان اور پڑوسی ممالک کے سینئر نمائندوں نے شرکت کی تھی ۔
ازبکستان کانفرنس سے قبل ایک بیان میں، چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ بیجنگ افغانستان اور خطے دونوں میں استحکام، سلامتی، خوشحالی اور ترقی کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مزید قریبی کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
بیان میں افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے ساتھ ساتھ اس کے عوام کے انتخاب کا احترام کرنے کے چین کے عہد کی توثیق کی گئی۔
چین نے بین الاقوامی برادری سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی مستحکم حمایت کرنے کی اپیل کی اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس ملک کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم رہے۔
بیجنگ نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے عوام کے مفادات اور ایک کھلے اور جامع سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بین الاقوامی برادری کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے فعال طور پر کام جاری رکھے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہمیں امید ہے کہ افغان عبوری حکومت، خواتین، بچوں اور تمام نسلی گروہ سمیت، تمام افغان عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی "۔
اس وقت افغانستان میں لڑکیاں چھٹی جماعت سے آگے سکول نہیں جا سکتیں اوروہاں کی یونیورسٹیوں میں خواتین کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ حکام ان تعلیمی بندشوں کو ، پابندیوں کی بجائے عارضی معطلی کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن مارچ میں جب یونیورسٹیاں اور اسکول دوبارہ کھلے تو طالبات کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
خواتین کو عوامی مقامات بشمول پارکس میں جانے اوربیشتر ملازمتوں سے بھی روک دیا گیا ہے۔
ان پالیسیوں نے شدید بین الاقوامی اعتراضات کو جنم دیا ہےاور ا نسانی بحران کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ ان سے ملک کے الگ تھلگ ہو جانے میں ایک ایسے وقت میں اضافہ ہوا ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت تسلیم نہیں کیاہے۔
یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی ہے۔