گزشتہ ہفتے روس کے دارالحکومت ماسکو میں فیڈرل سیکیورٹی سروس کے صدر دفتر کے سامنے، روس کے چند نامور صحافیوں نے غداری کے الزام میں گرفتار ایک سابق صحافی آئیون سیفرونوف کی گرفتاری پر احتجاج کیا۔ احتجاج پر کچھ صحافیوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔
اگر یہ واقعہ امریکہ یا کسی دوسری مغربی جمہوریت میں پیش آیا ہوتا، تو ایک کہرام مچ جاتا۔ مگر، روس میں میڈیا کیلئے اپنے حقوق کی جدوجہد ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔
یکم جولائی سے روس میں آئینی ترامیم کو رائے دہی کے ذریعے منظور کیا گیا ہے، جس سے صدر ولیدیمیر پیوٹن کی حکومت کو آزادی اظہار کو دبانے کی اجازت مل گئی ہے، اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے جہدوجہد میں مزید دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔
روسی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تقریباً 100 کے قریب قوانین میں ترمیم اور مزید نئے قوانین کی منظوری دیں گے، تاکہ آئینی ترامیم سے مطابقت پیدا کی جا سکے۔
تاہم، میڈیا ماہرین نے اِن خدشات کا اظہار کیا ہے کہ تازہ آئینی ترامیم کے بعد، پریس کی آزادی میں مزید تنزلی کا امکان ہے۔
یکم جولائی کے بعد، آئیون سیفرونوف کو گرفتار کیا گیا، اور ریڈیو فری یورپ کی روسی سروس کیلئے بطور فری لانس کام کرنے والی خاتون صحافی سویٹلینا کو دہشت گردی کو حق بجانب قرار دینے کا مجرم قرار دیا گیا۔ انسانی اور صحافتی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے سویٹلینا کے خلاف عائد مقدمات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی ایک کوشش کے مترادف بتایا ہے۔
روس کے خلائی ادارے کیلئے کام کرنے والے آئیون سیفرونوف، روسی حکام نے جمہوری چیک کو فوجی راز دینے کا ملزم قرار دیا ہے۔ آئیون نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ اس سے پہلے اخبار کومر سانٹ اور ویڈومِسٹی میں کام کر چکے ہیں۔ ان کے وکیل اور حامیوں کاکہنا ہے کہ الزامات گھڑے گئے ہیں۔
پراگ میں قائم چارلس یونیورسٹی میں بورس نیمٹسوف سینٹر فار سٹڈی آف رشیا سے منسلک الیگزینڈر موروزوف کا کہنا ہے کہ حکومت نے سختی برتنی شروع کی ہے، اور یہ سلسلہ مزید بدتر ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ امکان یہی ہے کہ روس میں آزاد میڈیا ور بلاگرز کیلئے فنڈنگ کے مواقع ختم کر دئے جائیں گے۔
روس کا آئین سرکاری سطح پر سینسرشپ کی ممانعت کرتا ہے۔ لیکن، اس سے حکام کیلئے آزاد رائے رکھنے والے صحافیوں کے خلاف عدالتی کارروائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔